صحافت کے طالبعلموں کوپڑھایا جاتا ہے کہ حکومتیں اپنی کو تاہیاں چھپانے کیلئے جھوٹ بولتی ہیں اسلئے صحافی کی اولین ذمہ داری لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنا ہوتاہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب جھوٹ کم اور سچ زیادہ ہوتا تھاآج کل تو ہر حکومت نے اپنی جماعت کے توسط سے میڈیا سیل بنائے ہوے ہیں جو جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ڈس انفارمیشن اور دروغ گوئی کا پرچار کرنے والے خودساختہ ماہرین اپنے ممدوح کو مسیحا بنا کر پیش کرنے کیلئے ایسی فسانہ طرازی کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے یہ نابغے ایسے مرغان باد نما ہونیکا دعویٰ کرتے ہیں جنہیں ہوا کا رخ پہلے سے معلوم ہوتا ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہر حکمران کو ایسے مداحوں‘ مدافعت کاروں اور نیاز مندوں کا غول میسر ہوتا ہے جو انہیں قوم کی امنگوں کا ترجمان بنا کر پیش کرتا ہے ان مدح خوانوں کے من پسند ہتھیاروں میں مذہبی جنون‘ قوم پرستی‘ شاونزم اور رجعتی رحجانات شامل ہوتے ہیں انکا مقصد ایک ایسا Informational Chaos یا اطلاعاتی انتشار اور Misinformation Bubble تخلیق کرنا ہوتا ہے جسمیں پھنس کر لوگ حقائق تک رسائی حاصلنہ کرسکیں یہ وابستگان سرکاراحتساب‘ مؤاخذے اور اخلاقی گرفت کا ڈھول بجا کر لوگوں کو حقائق سے بیگانہ کر دیتے ہیں انکی حکومت کتنی ہی نا اہل اورنا قابل اعتبار کیوں نہ ہو یہ اسے باصلاحیت‘ شفاف اور عوام دوست بنا کر پیش کرنیکا فن بخوبی جانتے ہیں انکے دروغ مصلحت آمیز کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ
ہوس لقمۂ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
اس قسم کے ممدوحین یورپ میں ہوں یا امریکہ میں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ لاہور میں مریم نواز کی بلٹ پروف گاڑٰی پر برسنے والے پتھر کس طرف سے آئے تھے ان پر کس جماعت کا نام لکھا تھا اور اور انہیں پھینکنے والے کون تھے یہ معاشرتی ٹھیکیدار اس حقیقت کو خاطر میں نہیں لاتے کہ سچائی اور فکشن میں ایک فرق یہ ہوتا ہے کہ فکشن کو سچ ثابت کرنے کیلئے بڑا زور لگانا پڑتا ہے جبکہ سچ سیدھے سادھے انداز میں بھی اپنا آپ منوا لیتا ہے گذشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلیکن پارٹی کے کنونشن کو دیکھتے ہوے طبیعت بوجھل ہو رہی تھی صدر امریکہ کے ایک مدح خوان نے یہاں تک کہہ دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگر بروقت اقدامات نہ کرتے تو کورونا وائرس کی وجہ سے کئی ملین امریکی ہلاک ہو چکے ہوتے اس طوطی خوش بیاں کی اس دیدہ دلیری کے بعد یہ پروگرام مزید نہ دیکھا جا سکتا تھا
میں نے اکتا کر اردو نیوز چینل کا رخ کیا تو چند منٹ بعد پتہ چلا کہ وہاں بھی صورتحال ریپبلیکن پارٹی کے کنونشن سے مختلف نہ تھی وطن عزیز میں آجکل عمران خان کے اس بیان کے چرچے ہو رہے ہیں کہ معیشت اب درست سمت میں جا رہی ہے بیرون ملک سے آنیوالی ترسیلات زر گزشتہ تین ماہ سے مسلسل بڑھ رہی ہیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اب سرپلس میں بدل چکا ہے ایف بی آر نے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ رواں سال کے پہلے ماہ میں ٹیکس گزشتہ سال کے مقابلے میں تئیس فیصد زیادہ جمع ہوا ہے ان خوش خبریوں میں سے جھانکنے والا اہم سوال یہ ہے کہ معاشی حالات اگر اتنے اچھے ہیں تو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے چینی‘ گندم اور گیس مافیا چینی کمیشن کی رپورٹ آنیکے بعد اور جہانگیر ترین کے لندن پدھارنے کے بعد بھی کیوں من مانیاں کر رہے ہیں۔
بعض سنجیدہ ماہرین کے تجزیوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب خوش خبریاں سبز باغ ہیں یہ حکومت کو عوام دوست اور با صلاحیت ثابت کرنے کی ایک ڈس انفارمیشن مہم ہے ماہرین اقتصادیات ان من گھڑت خوشخبریوں کو عارضی علامات قرار دے رہے ہیں انکا کہنا ہے کورونا وائرس کیوجہ سے دنیا بھر میں اقتصادی سرگرمیاں تقریباّّ ختم ہو چکی تھیں پورا یورپ تین ماہ تک لاک ڈاؤن کی زد میں رہا ایسے میں وہ ممالک جہاں لاک ڈاؤن نہیں تھا کی برآمدات میں اضافہ ہوا یہ ماہرین ترسیلات زر میں اضافے کی وجہ یہ بتا رہے ہیں کہ خلیجی ممالک سے پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بیروزگار ہو کر وطن واپس لوٹ رہی ہے انہوں نے خلیجی بینکوں سے اپنی جمع پونجی پاکستانی بینکوں میں ٹرانسفر کرائی ہے یہ ایک عارضی صورتحال ہے ان علامات کو معیشت کی بحالی کا نام نہیں دیا جا سکتا ہم جانتے ہیں کہ ہماری اقتصادیات کئی دہائیوں تک امریکی امداد اور بیرونی قرضوں کی مدد سے گرتی پڑتی آگے بڑھتی رہی اسے کبھی بھی ملک کے اندر ایک مضبوط پیدا واری بنیاد میسر نہیں آئی یہ سلسلہ اسوقت تک چلتا رہا کہ جب تک ہم نے امریکہ کی بندوق اٹھائے رکھی اب پچھلے تین سالوں سے اس کار عبث سے فراغت کے بعد ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونیکی کوشش کر رہے ہیں وزیر اعظم صاحب دو سالوں تک اپنی حکومت کی ناقص کارکردگی کو گزشتہ حکومتوں کی نااہلی اور کرپشن کا غسل صحت دیتے رہے اب انہیں اس حقیقت کا سامنا ہے کہ باقی کے تین سال یہ طرز استدلال نہیں چل سکتا انہیں بہت جلد حقائق سے انحراف کی دھند میں سے نمودار ہو کر حقیقت منتظر کا سامنا کرنا پڑیگا پی آئی اے کی عالمی رسوائی کا الزام گزشتہ حکومت کو نہیں دیا جا سکتا
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کے خلاف جو گوہر افشانی کی اسکے نتیجے میں ایک ارب ڈالر چین سے قرض لیکر سعودی حکمرانوں کو دینے پڑے اسکے باوجود بات نہ بنی تو چیف آف آرمی سٹاف کو ریاض جا کر یقین دہانیاں کرانا پڑیں۔ماہرین یہ بھی کہہ رہے کہ آئی ایم ایف نے کورونا وائرس کیوجہ سے مقروض ممالک سے قرضوں کے حصول کی شرائط میں نرمی کی ہوئی ہے عنقریب جب قرضوں کی واپسی کا مطالبہ ہوا تو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ نا گزیر ہو گا ایسے میں احمد فراز کا یہ شعر دستک دیتا ہے
میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں فراز
کہ میں نے دیکھی ہیں آنکھیں اداس لوگوں کی
مسلم لیگ نون نے حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر جو وائٹ پیپر شائع کیا ہے اسکے اہم نقاط میں سے ایک یہ ہے کہ انکی حکومت کے دوران عام آدمی کی آمدنی 1632 ڈالر تھی جو اب کم ہو کر 1388 ڈالر رہ گئی ہے اس دستاویز کے مطابق معیشت کا حجم 315 بلین ڈالر سے کم ہو کر 264 بلین ڈالر رہ گیا ہے اور حکومت کی ناکام پالیسیوں نے دو سالوں میں ملکی خزانے کو اکیاون ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔زمینی حقائق اور ماہرین کے تجزیوں کی روشنی میں حکومت کے میڈیا سیل کے مدح خوانوں سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہیں حقائق کی بے حرمتی نہیں کرنی چاہئے یہ کسی نہ کسی دن سچ بن کر سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔