اب سادہ کاغذ ، گتے اور یہاں تک کہ ٹشوپیپر کو بھی کی بورڈ یا کی پیڈ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یہ اہم کام پوردوا یونیورسٹی کے ماہرین نے کیا ہے۔
اس ایجاد کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے کی پیڈ بنانے اور چلانے کے لیے کسی اضافی بیٹری کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ خود سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح عام اشیا کی پیکنگ کو بھی انٹرایکٹو بنایا جاسکتا ہے۔
’ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ خود سے بجلی بنانے والے کسی برقی آلے کا عملی مظاہرہ کیا گیا ہے،‘ رامسِس مارٹنیز نے بتایا جو پوردوا یونیورسٹی کے ویلڈن اسکول آف بایومیڈیکل انجینیئرنگ کے نائب پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پر فلورینیٹڈ سالمات کی ایک تہہ چڑھائی گئی ہے جو اسے پانی، گرد اور چکنائی سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس طرح ہم کاغذ پر سرکٹ کی کئی پرتیں لگاسکتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی بٹن دباتا ہے پریشر سینسر اس دباؤ سے بجلی بنانے لگتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اسے روایتی پرنٹنگ کے ذریعے چھاپا جاسکتا ہے۔ اس طرح اسمارٹ پیکنگ اور انسان مشین انٹرفیس کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کھانے پینے کی اشیا کی پیکنگ ازخود خبر دے سکے گی کہ وہ تازہ ہے یا پرانی، اس میں اجزا کونسے ہیں؟ یا پھر استعمال کی تاریخ کیا ہے؟
اس کے عملی مظاہرے کی ایک ویڈیو بنائی گئی ہے جس میں کاغذ کے ٹکڑے کو میوزک انٹرفیس میں تبدیل کرکے اس سے گانے بجانے اور آواز قابو کرنے کو دیکھا جاسکتا ہے۔
لیکن کاغذی کی بورڈ اور کی پیڈ کو دیگر لاتعداد کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔