شام کے وقت میں نے سوچا کہ اکیلے یا پیادہ گھوم کر شہر دیکھنے کا یہ اچھا موقع ہے۔ اس کے بعد مجھے اس نئے شہر کے ان گلی کوچوں کو دیکھنے کی توفیق نصیب نہ ہوگی جہاں حکام کو دعوتیں دینے والے عمائدین رہائش نہیں رکھتے۔ڈاگ بنگلہ سے نکلتے ہی میرا اردلی تیز تیز قدم میرے آگے آگے ہولیا۔ سب سے پہلے اس نے زور کا دھکادے کر ایک چوکیدار کو میرے راستے سے ہٹایا جو نئے ڈپٹی کمشنر کی جان و مال کی حفاظت کیلئے رات کی ڈیوٹی پر حاضر ہو رہا تھا۔ اس کے بعد اس نے کڑک کر ایک سقہّ کو ڈانٹا جو میونسپل کمیٹی کے زیر اہتمام آج خاص طورپر ڈاک بنگلہ کے آس پاس پانی کا چھڑکاﺅ کر رہا تھا۔
اگر میں اصرار کرکے اردلی کو واپس نہ کردیتا تو بے شک وہ اسی طرح ہٹاﺅ بچاﺅ کرکے سارے شہر میں میرا جلوس نکالتا۔ اردلی تو واپس لوٹ گیالیکن تھوڑی دیر کے بعد ناظر صاحب ایک موٹر کار لئے میرے تعاقب میں نکل آئے‘کار میرے عین مقابل آہستہ سے کھڑی ہوگئی اور اس میں سے ناظر صاحب برآمد ہوئے۔میرے انکار پر انہوں نے میرے ساتھ ساتھ پیدل چلنے کی پیشکش کی۔ میں نے پھر دوبارہ شکریہ ادا کرکے انہیں رخصت کر دیا۔ ناظر صاحب چلے تو گئے لیکن راستہ بھر مجھے یہی خدشہ رہاکہ کہیں وہ اچانک اگلے موڑ پر دست بستہ کھڑے نظر نہ آجائیں۔ایک روز محکمہ مال کے ایک بہت بڑے افسر دورے پر آئے ہوئے تھے۔
ان کےساتھ کوئی سات آدمیوں کا عملہ تھا دو چپڑاسی‘ ایک ڈرائیور‘ ایک پی اے‘ ایک نائب تحصیلدار اور دو پٹواری۔ بڑے صاحب ڈاک بنگلہ میں فروکش ہوئے۔ نائب تحصیلدار اور پی اے صاحب کیلئے چولداریاں نصب ہوگئیں‘پٹواریوں کو خود ناظر صاحب نے اپنے ہاں مہمان ٹھہرایا۔ تین دن کے قیام کے بعد صاحب بہادر نے حسب معمول بل طلب کیا۔ ناظر صاحب نے جو بل پیش کیا اس کی تفصیلات کچھ یوں تھیں۔مرغی‘ چارعدد‘دو روپے پانچ آنے۔ گوشت ، پانچ سیر‘ایک روپیہ تیرہ آنے۔سبزی‘چھ آنے تین پائی۔دودھ‘آٹھ سیر‘ ایک روپیہ نو آنے۔چائے چینی‘آٹھ آنہ چھ پائی۔متفرقات‘ ایک روپیہ دو آنے۔کل میزان‘ سات روپے گیارہ آنہ نو پائی۔ایک زمانہ تھا کہ اس قسم کے دوروں پر بل مانگنا یا بل پیش کرنا ناقابل تصور تھا لیکن اپنے نظم و نسق میں دیانتداری کو فروغ دینے کیلئے حکومت نے بڑی سخت تاکیدی ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ ہر افسر اپنے دورے کے بعد اپنے اخراجات کا پورا بل ادا کیا کرے۔ ضابطہ کی پابندی کیلئے ہر بل کےساتھ رسیدیں بھی منسلک ہوتی ہیں تاکہ سند رہیں۔(شہاب نامہ سے اقتباس)