پروفیسر امداد حسین بیگ صاحب کی شخصیت بڑی دلچسپ ہے‘انکے گھر میں درجنوں موٹے موٹے البم ہیں جو دنیا بھر کے سیاستدانوں کی تصویروں سے بھرے پڑے ہیں‘ اس روزپرانے پشاور کی باتیں بتا رہے تھے‘ کہنے لگے کہ یہاں قدیم خاندان آباد تھے اور دور دور سے لوگ چلے آتے تھے‘پنجاب‘ یوپی اور بنگال تک سے لوگ آتے اور یہیں رہ گئے۔ تجارت بہت تھی‘ آب و ہوا اچھی تھی‘ زمین آسانی سے دستیاب تھی‘چنانچہ پشاور کی آبادی بڑھتی گئی اب افغانستان میں روسیوں کا عمل دخل ہوا تو نئی قسم کے مہاجرین کی نئی لہر آئی ہے امداد حسین بیگ صاحب نے بتایا۔’لاکھوں کی تعداد میں افغان اپنا وطن چھوڑ کر پشاور آگئے ہیں اور پھر پشاور سے آگے جوں جوں انہیں موقع ملتا ہے‘وہ پنجاب کی طرف بڑھ رہے ہیں اور حکومت بھی انکی پوری امداد کررہی ہے
انکی رہائش کیلئے‘تو ہمارے پشاور سے کتنے ہی میلوں تک‘چالیس پچاس میل کے علاقے تک مہاجرین آباد ہیں‘سڑک کے کنارے جتنے علاقے میں تمام آباد ہوگئے ہیں‘یہاں جو افغان مہاجر آتے ہیں ان کی رہائش کیلئے‘انکی دیکھ بھال کیلئے‘ ان کی تعلیم کیلئے‘انکے کاروبار کیلئے‘انکی تجارت کیلئے حکومت اور عوام ان سے پورا تعاون کرتے ہیں اور اس طریقے سے صوبہ کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور جس کا لازمی ردعمل یہ ہے کہ گرانی حد سے بڑھ گئی اور عوام الناس میں بہت بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور رہائش کی جگہ نہیں ہے۔
غذائی حالت خراب ہے اور گرانی نے لوگوںکی کمر توڑ دی ہے۔جی ٹی روڈ پر ہی میں نے افغان پناہ گزینوں کے اندراج کا دفتر دیکھا۔ قبائلی علاقوں کی طرف سے وہ موٹر گاڑیوں پر بیٹھ کر جوق در جوق آرہے تھے اور اپنے نام لکھوا رہے تھے۔ جرمنی کی بنی ہوئی مسافر بردار گاڑیاں تھیں جن پر جرمن زبان ہی میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ غالباً امداد میںملی ہوں گی لیکن بہت سے افغان جو اپنے ملک میںٹرک چلانے کا کاروبار کرتے ہوں گے‘اپنے ٹرک بھی ساتھ لے آئے تھے جو پھر میں نے پشاور سے لاہور تک ہر جگہ دیکھے‘ افغان ٹرکوں کی پہچان بہت آسان تھی‘ بڑے بڑے تھے‘ بدہیبت تھے اور ان پر کوئی رجسٹریشن نمبر یا نمبر پلیٹ نہیں تھی۔
انہیں یہ رعایت تھی کہ اپنے ٹرک نمبر پلیٹ کے بغیر چلالیں‘میں نے گجرانوالہ میں ایک اعلیٰ پولیس افسر سے پوچھا کہ اتنا ٹریفک رجسٹریشن کے بغیر چل رہا ہے‘یہ افغان پناہ گزین آپ کو پریشان نہیں کرتے؟ پولیس افسر نے منہ سے کوئی جواب نہ دیا۔سر سے ٹوپی اتاری اور مئی جون کی شدید گرمی میں پسینے سے شرابور پیشانی پر جو ہاتھ مارا تو اس کے چھپا کے نے ساری بات کہہ دی۔
(رضاعلی عابدی کے پروگرام سے اقتباس)