نما ئش کا انا ﺅ نسر ، ایک بڑ ا فنکا ر

 پاکستان ٹیلی وژن کے سابق سربراہ اور دیگر اہم عہدوں پر خدمات سرانجام دینے والے معروف براڈ کاسٹر آغاناصر اپنی یاد داشتوں میں لکھتے ہےں کہ کس طرح محمد علی جیسا بڑا فنکار اپنے شعبے میں متعارف ہوا ‘آغا ناصر کا کہنا ہے کہ پاکستان نیا نیا بنا تھا یہ وہ زمانہ تھا جب صنعتی میدان میں ہونےوالی ترقی سے ملک کو روشناس کرانے کےلئے نجی اور سرکاری اداروں کے اشتراک سے ہر سال ایک بین الاقوامی صنعتی نمائش لگتی تھی‘ ایسی ہی ایک نمائش میں پہلی بار ٹیلی وژن کا سٹال لگایا گیا‘ نمائش کا اپنا مائیکرو فون سٹیشن ہوتا تھا جہاں سے ہروقت مقبول فلمی گیتوں کی ریکارڈنگ نشر ہوتی رہتی اور گاہے گاہے ضروری اعلانات کئے جاتے‘ نمائش آراستہ کرنا اورچار پانچ ہفتہ کے طویل عرصے تک اس کا نظم ونسق چلانا بڑا کٹھن کام تھا جس شخص نے اس کام میں مہارت حاصل کرلی تھی اس کا نام ایس ایم جمیل تھا ایس ایم جمیل کو لوگ‘ جمیل نمائش والے ‘کے نام سے پکارنے لگے تھے

 آزمائشی ٹیلی وژن پہلی بار ایسی ہی ایک نمائش میں لگایا گیا کراچی کے شائقین نے اس نئی ایجاد کا پرزور خیر مقدم کیا نمائش میں کھمبوں پر لٹکائے گئے ٹیلی وژن سیٹوں کے سامنے رات گئے تک لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے رہتے‘ میں بھی کبھی کبھی اسی بھیڑ کا حصہ ہوتا اس وقت مجھے کیا معلوم تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب پاکستان میں ٹیلی وژن کی سربراہی میرے حصے میں آئے گی لیکن اس کی تھوڑی سی چاشنی مجھے اس نمائش کے دوران ضرور مل گئی مجھے ایک مہینے کےلئے نمائش کے ٹیلی وژن سٹوڈیو کا انچارج بنایا گیا تھا جہاں سے فلمیں ‘کارٹون‘شوقیہ گانے والوں کے پروگرام اور گمشدگی کے اعلان بھی ہوا کرتے تھے یہ سٹوڈیو سامنے کھلا تھا اور قد آدم شیشوں کے دوسری جانب موجود تماش بین پروگرام دیکھتے رہتے تھے ہم نے نمائش میں لگائی جانےوالی صنعتی اشیاءاور کھانے پینے کی دکانوں کے براہ راست اشتہارات کا انتظام بھی کیا تھا

 ان اشتہاری پروگراموں میں ریڈیو فن کار حصہ لیا کرتے تھے اس ٹیلی وژن پر تقریباً چار پانچ گھنٹے روزانہ پروگرام ہوتے تھے میرے علاوہ دواناﺅنسرز اور بھی تھے جو جلد ہی اس قدر مقبول ہوگئے کہ ان کو نمائش کے گیٹ سے لانے اور چھوڑنے کےلئے پولیس کے تحفظ کی ضرورت پڑنے لگی ان اناﺅنسروں میں ایک محمد علی تھا جو بعد میں پاکستان کی فلمی دنیا کے آسمان پر ایک درخشاں ستارہ بن کرچمکا اور دوسری ثریا شہاب جنہوں نے بحیثیت نیوز کاسٹر بے پناہ شہرت حاصل کی اور بی بی سی اردو سروس ‘ریڈیو جرمنی اور ایران ریڈیو سے وابستہ رہےں۔