سولہ سال پہلے میر والا جتوئی میںمختاراں مائی کیساتھ جو کچھ ہوا تھا اسکے بعد چند روز قبل ڈیفنس لاہورسے گجرانوالہ جاتے ہوئے گجر پورہ کے قریب رات کے وقت موٹر وے کے لنک روڈ پرخاتون سے ہونیوالی اجتماعی زیادتی نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ خواتین کے عزت و احترام کے معاملے میں ہماری ترقی معکوس کا سفر تیزی سے جاری ہے مختاراں مائی کا قصور یہ تھا کہ اسکے بھائی نے مبینہ طور پر گاﺅں کے اختیار مندوں کے گھر میںتعلق استوار کرنیکی کوشش کی تھی اس جرم کی سزا میں گاﺅں کے سفید ریش بزرگوں نے پنچایت میں جواں سال مختاراں مائی کے گینگ ریپ کا حکم بڑے دھڑلے سے دیا تھا وہ صاحبان اختیار تھے پوچھنے والا بھی کوئی نہ تھا اسلئے انہوں نے اپنی بے عزتی کا بدلہ ایک بڑا سانحہ تخلیق کر کے لے لیا گجر پورہ کے قریب درندگی کا شکار ہونیوالی خاتون کا قصور یہ تھا کہ وہ فرانس سے اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات دلانے کیلئے اپنے وطن آئی تھی لاہور کے صاحب اختیار سی سی پی اوعمر شیخ نے اس مظلوم کی کوتاہیوں کی جو فہرست میڈیا کو دی ہے اسمیں ایک بات یہ ہے
کہ خاتون کو رات کے وقت موٹر وے پر سفر کرنیکی بجائے جی ٹی روڈ کا راستہ لینا چاہئے تھاصوبہ پنجاب کے اس ذمہ دار اور اعلیٰ پولیس افسر نے یہ بھی کہا کہ خاتون کو روانہ ہونے سے پہلے پٹرول چیک کر لینا چاہئے تھااب اگر چہ کہ سخت عوامی رد عمل کے بعد انہوں نے معافی مانگ لی ہے مگر انکا پہلا بیان نوشتہ دیوار ہو چکا ہے اسے مٹایا نہیں جا سکتازبان خلق تو یہ بھی کہہ رہی ہے کہ بہتر یہی ہو گا کہ حکومت یہ اعلان کردے کہ رات کے وقت موٹر وے پر کسی کی حفاظت کا بندوبست نہیں ہو سکتا اسلئے اس راستے کو صرف دن کے وقت استعمال کیا جائے عمر شیخ کے اس اتمام حجت پر مزید بات کرنے سے پہلے یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ مختاراں مائی کے ساتھ ہونیوالی سفاکی کے جواب میں پرویز مشرف کے ایک وزیر نے کہا تھا ” آجکل امریکہ اور کینیڈا کا ویزہ لگوانے کیلئے گینگ ریپ کروانا ایک فیشن بن گیا ہے“ اسکے جواب میں ادریس لاہوری کے اس شعر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
چشم نازاں میں طلب اپنی بڑھاتے ہوئے ہم
اور بھی عریاں ہوئے ننگ چھپاتے ہوئے ہم
یہ کٹ حجتی چشم نازاں میںاپنی طلب بڑھانے کے علاوہ معاشرے کے اجتماعی شعور کی چغلی بھی کھا رہی ہے سولہ سال میں کچھ بھی نہیں بدلاگاﺅں کے بزرگوں کی ہٹ دھرمی کے بعد اب صاحب اختیار پولیس افسر نے بھی اپنے تصور اخلاقیات کے دریچے وا کر دئے ہیں یہ درست ہے کہ معاشرے کے ایک حساس طبقے نے سولہ سال پہلے بھی اور آج بھی اس وحشت کے خلاف پر زور احتجاج کیا ہے مگر ارباب بست و کشاد عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کیساتھ ساتھ اپنے دل کی بات بھی کرتے رہتے ہیں
پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدارنے عمر شیخ کی معافی کی سرکاری توثیق کرتے ہوے کہا ہے کہ انکا بیان غیر ضروری تھا غیر قانونی نہ تھا اس سے پہلے وفاقی وزرا ءمیں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہونیکی شہرت رکھنے والے وفاقی وزیر اسد عمر نے حامد میر کے پروگرام میں کہا تھا کہ سی سی پی او کے بیان میں کوئی بات غیر قانونی نہیں قانونی کاروائی کیسے ہو سکتی ہے سرکار اگر چاہے تو قانونی کاروائی ہو بھی سکتی ہے ایک با اختیار پولیس افسر نے سرکاری حیثیت میں ایسا بیان دیا ہے جس نے لوگوں کی بر افروختگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے نامی گرامی اختیار مندوں نے علاج تیرگی کرنیکی بجائے بھڑکتی آگ پر مزید تیل چھڑک دیا ہے قاسم پیر زادہ کا شعر ہے
شہر اگر طلب کرے تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
مان لیتے ہیں کہ ایک ہی طرح کے واقعاتی حقائق سے مختلف نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیںمگر جن منصب داروںکے ہاتھ میں میگا فون ہو انہیںیہ معلوم ہونا چاہئے کہ انکا سرکاری بیان پورے ملک میں سنا جائیگا اور اسپر بھرپور رد عمل بھی سامنے آئیگا یہ بھی مان لیتے ہیں کہ سرکار قانونی کاروائی کے حق میں نہیں ہے تو کیا جس محکمے کی شہرت کونقصان پہنچا ہے وہ اس بعید از فہم عذر گناہ کے خلاف ضابطے کی کوئی کاروائی بھی نہیں کر سکتایہ نقطہ نظر اسلئے غیر اہم نہیں کہ تحریک انصاف حکومت کرپشن کرنےوالوں کے احتساب کی کاروائیاں بڑے فخر کیساتھ دو سال سے بلا ناغہ سر انجام دے رہی ہے میڈیا ہر روز ہتھکڑیوں‘ گرفتاریوں اور سزاﺅں کی خبروں سے گونج رہا ہے لگتا ہے
کہ حکومت مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے ایک نقاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے مہنگائی‘ بیروزگاری‘ غربت‘ اندرونی اور بیرونی قرضے‘ چینی سکینڈل‘ آٹا ‘ گندم ‘ پٹرول‘ بجلی اور نئے قرضوں کے سکینڈل سب کچھ ثانوی حیثیت رکھتا ہے احتساب کے بے لگام گھوڑے کو بگٹٹ دوڑاتے ہوے اساتذ¾ہ کرام اور وائس چانسلروں تک کو ہتھکڑیاں پہنا دی گئی ہیں ایسے میں بے لگام وزیروں اور افسروں کو انکی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں پرکٹہرے میں کیوں کھڑا نہیں کیا جا سکتا کرپشن صرف مال و زر کی نہیں ہوتی اسکے اخلاقی پہلوبھی ہوتے ہیں حکومت اگر ان گنت مافیاز کے سامنے بے بس ہے تو پھر اسکے احتساب کو غیر جانبداری اور انصاف کے طہارت خانے میں غسل صحت نہیں دیا جا سکتا کسی بھی حکومت کی اہم ترین ذمہ داری عوام کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے
اسکے افسران بالا اگر معروضی حقائق کے بر خلاف اپنی موضوعی رائے کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں تو انہیں سرکاری منصب کو چھوڑ کر ذاتی حیثیت میں اپنی حق گوئی کا تہوار منانا چاہئے جس سانحے پر پشاور سے کراچی تک ہر شہر میں احتجاج ہو رہے ہوں اسکی حساسیت سے اغماز برتنا حقائق کا تمسخر اڑانے والی بات ہے کیا یہ حقیقت نہیں کہ مظلوم خاتون رات کی تاریکی میںدو گھنٹے تک ایک ویران سڑک پر اپنی دو بیٹیوں سمیت گاڑی میں سہمی ہوئی بیٹھی رہی اسنے موبائل فون پر موٹر وے پولیس کو کئی مرتبہ فون کیا لیکن کوئی جواب نہ ملا پھر وہ لمحہ آ پہنچا جب اسنے وہ دستک سنی جسنے اسکی اور اسکی بیٹیوں کی زندگی ہمیشہ کیلئے بدل دی وحشیوں نے گاڑی کے شیشے توڑ ڈالے اور ایک قومی سانحے نے جنم لے لیااس واردات میں کونسے حقائق زیادہ اہم ہیں خاتون کی بے بسی یا رات کے وقت اسکا سفر‘ ایک دلدوز واقعہ یا گاڑی میں پٹرول کا نہ ہونا ان میں سے آپ جن حقائق کاانتخاب کریں گے وہی آپکے انداز فکرکے آئینہ دار ہوں گے اور وہی آپکو آخری نتیجے تک پہنچائیں گے جہاں تک صاحبان اختیار کے من پسند بیانات کی بات ہے تو انکے بارے میں دانشور نے کہا ہے ” اس نوع کے اسلوب بیان کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ صاحب بیان کو ماہر نفسیات کی فوری ضرورت ہے“