وفاقی کابینہ نے انسانی زندگی بچانے والی 94 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے‘ کورونا وائرس سے بچاؤ کے ٹیکے کی قیمت 8 ہزار 244 روپے مقرر کی گئی ہے‘ کابینہ نے لائف سیونگ ڈرگز درآمد کرنے کی اجازت بھی دے دی ہے‘ کابینہ کے اجلاس میں دیگر فیصلوں کے ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ وطن عزیز میں گردشی قرضے مزید بڑھ کر 2100 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں کابینہ کے اجلاس کے فیصلوں سے متعلق ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو تفصیل بتاتے ہوئے اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ گردشی قرضے کینسر کی طرح پھیلتے جارہے ہیں‘ عالمی منڈی کا اتار چڑھاؤ حقیقت ہے‘ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ معاشی منظرنامے میں تبدیلی بھی ایک حقیقت ہے۔ وطن عزیز کو درپیش معاشی چیلنج بھی ایسی تلخ حقیقت ہیں کہ جن سے چشم پوشی کسی صورت ممکن نہیں‘ قرضے دینے والے ممالک اور اداروں کی شرائط بھی اپنی جگہ ہیں جن کو پورا کرتے ہوئے سارا بوجھ غریب اور متوسط طبقے کے شہریوں پر ہی پڑتا ہے اس کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی نے غریبوں کی کمر توڑ کررکھ دی ہے اوپر سے منڈی کنٹرول کے لئے کل وقتی فعال نظام کی ضرورت سے گریز بھی ہے‘ اس ساری صورتحال میں ادویات کی قیمتوں میں مختصر عرصے کے دوران ایک اور اضافہ مرے ہوئے کو مارنے کے مترادف ہے‘ فارما کمپنیوں کی مجبوری اپنی جگہ‘ حکومت نے قیمتوں میں اضافے سے متعلق جو قاعدہ تبدیل کیا وہ بھی اعلیٰ سطح پر اس حوالے سے احساس کا عکاس ہے تاہم اس سب کے ساتھ عام شہری پر ایک بڑا بوجھ آپڑا ہے اس میں زیادہ وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں کہ جنہیں باقاعدگی سے دوا لینا ہوتی ہے اور ادویات کا بل ان کے ماہانہ اخراجات میں شامل ہوتا ہے ادویات کی قیمتوں کے ساتھ معیار سے متعلق شکایات بھی موجود ہیں۔ شکایت یہ بھی موجود ہے کہ بعض ایسی دوائیں تجویز ہوتی ہیں جو تجویز کرنے والے معالج کے کلینک یا ہسپتال کے قریب ہی ملتی ہیں۔ حکومت علاج کی سہولیات اور صحت کے شعبے میں اصلاحات کو ترجیح قرار دیتی ہے غریب شہریوں کے لئے ضروری ہے کہ ادویات پر بھاری شرح سے سبسڈی دی جائے ادویہ سازی اداروں کو بعض غیر ضروری اخراجات کم کرنے کا کہا جائے خام مال اور پیداواری لاگت کم کرنے کے لئے فارما انڈسٹری کو مراعات دی جائیں ساتھ ہی فارمیسی شاپس کی سطح تک چیک اینڈ بیلنس یقینی بنایا جائے۔