ٹرین کا سفر

ادھر سورج نکلا ٗادھر بھکر سے میری ٹرین ڈیرہ غازی خان کی طرف روانہ ہوئی‘ٹرین فراٹے بھرتی ہوئی لیہ کی طرف چلی‘ یوں لگا کہ پنجاب کی سرزمین میں مانگ نکالتی جارہی ہو‘راستے میں جگہ جگہ گاؤں آنے لگے‘ صاف ستھرے گاؤں۔ ان کی لپی پتی روشن دیواریں‘ان میں بسنے والے بھی ویسے یہ جن پر صبح کی پہلی دھوپ کا نکھار تھا‘ بچے سڑک کے کنارے کھڑے تھے اور سکول جانے کیلئے شاید بس کا انتظار کر رہے تھے لڑکیاں بھی نیلی قمیض اور صاف سفید شلوار پہنے‘لال دوپٹے اوڑھے سکول جا رہی ہیں یہ سب پڑھ لکھ جائیں گے تو کتنا اچھا ہوگا۔ذرا آگے چلے تو راستے میں باغات آگئے جن کے درختوں کی شاخیں پھلوں کے بوجھ سے جھکی جھکی جا رہی تھیں‘کوئلے کی بھٹیاں سلگ رہی تھیں جن سے ہلکی رنگت کا دھواں اُٹھ رہا تھا‘ قریب ہی لکڑی کے ڈھیر تھے جنہیں جلا کر کوئلہ بنایا جا رہا تھا اور دوسری طرف کوئلے کے انبار بھی تھے‘جب میں بھکر سے اس ٹرین میں سوار ہوا تو اس کے کنڈیکٹر گارڈ آگئے‘صبح مجھے ناشتہ نہیں مل سکا تھا میں بھوکا تھا‘وہ میرے لئے حلوہ پوری لے آئے اور اپنی چائے میں بھی سانجھا کرنا چاہتے تھے مگر دوسری پیالی نہیں تھی‘وہ لپک کر برابر کے ڈبے میں گئے اور کسی مسافر کی پیالی لے آئے۔ہم دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے۔ کچھ دیر بعد اس گاڑی کے ٹکٹ چیکر صاحب آگئے ٗوہ بھی اپنے دکھ دیر تک بتاتے رہے ٗ ان کا بیٹا بڑا ہوگیا ہے پہلے ریلوے کے ملازموں کے بیٹوں کو ریلوے میں ملازمت مل جایا کرتی تھی مگر اب ملازم زیادہ ہیں ان کے بیٹے بھی بہت ہیں اسلئے نوکری کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔اس دوران ہماری گاڑی لیہ سے آگے نکل گئی یہاں اونچی اونچی گھات لگی تھی دور دور تک کھیت تھے ریلوے لائن کیساتھ ساتھ ایک سڑک تھی جس کی دوسری جانب دریا تھا ٗ ہمار شیر دریا!سڑک پر فلائنگ کوچ دوڑی چلی جا رہی تھی فلائنگ کوچ اور سوزوکی گاڑیاں آج کی اقتصادی زندگی میں بہت اندر تک چلی آئی ہیں‘یہاں دور دور تک درخت تھے ٗ اس سے پہلے تاحد گاہ کھیت ہی کھیت تھے میرے داہنے ہاتھ پر دریائے سندھ تھا جس کے پچھواڑے کوہ سلیمان کا سلسلہ چلا جا رہا تھا اور میرے بائیں ہاتھ پر تھل کا ریگستان تھا ٗ پنجاب کا تھل……لیکن یہ ویساریت اڑاتا ریگستان نہیں جیسا ہم سمجھتے ہیں یہاں ہریالی تھی ٗکھیت تھے ٗباغ اور درخت تھے گرد کم تھی اور تھوڑے فاصلے پر گاؤں تھے کہیں کوئی علاقہ ویران نہیں تھا۔ (رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)