ٹرمپ کی کہانی کے سبق

منگل کی رات ڈیڑھ گھنٹے تک صدر ٹرمپ اور ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار جوزف بائیڈن کا مباحثہ سننے کے بعدمجھے لگا کہ امریکی سیاست کے حوالے سے یہ اس ہفتے کا اہم ترین موضوع ہے اسلئے اسپر اظہار خیال ضروری ہے اگلے دو روز چند مصروفیات کی وجہ سے یہ کالم نہ لکھا جا سکا پھر جمعے کے دن دوپہردو بجے یہ خبر آئی کہ صدر ٹرمپ کورونا وائرس کا شکار ہو کر واشنگٹن ڈی سی کی جڑواں ریاست میری لینڈ کے ملٹری ہسپتال والٹر ریڈمیڈیکل سنٹر میں زیر علاج ہیں امریکہ بھر میں بہترین گردانے جانیوالے اس سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال کے ایک فلور کو صدارتی سویٹ میں تبدیل کر دیا گیا ہے کورونا وائرس کے اس خطرناک اور بھرپور حملے نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کہانی کے علاوہ امریکی تاریخ کو بھی ایک فیصلہ کن موڑ پر لا کھڑا کیا ہے پہلے صدر ٹرمپ کی زندگی کی کہانی کی بات کر لیتے ہیں منگل کی ڈی بیٹ سے تین روز پہلے نیو یارک ٹائمز نے چیختی چنگھاڑتی سرخیوں سمیت چار صفحوں پر محیط ڈونلڈ ٹرمپ کے وہ ٹیکس ریٹرن شائع کر دئے جسے صدر امریکہ چھپانے کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں اخبار کے رپورٹروں کی ایک ٹیم نے دو سال کی عرق ریزی کے بعد مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوے صدر امریکہ کے ماضی‘ حال اور مستقبل سے تعلق رکھنے والی اس دستاویز کو طشت از بام کر دیاہے امریکی سیاست کے تناظر میں یہ ایکPolitical Eathquake یا سیاسی زلزلہ تھا جس نے یہ ظاہر کیاکہ اپنے آپ کو ارب پتی اور ریئل سٹیٹ کنگ ظاہر کر کے صدر بننے والے شخص نے گزشتہ دو سالوں میں ہر سال صرف 750 ڈالر ٹیکس ادا کئے ہیںامریکہ میں اس سے کہیں زیادہ ٹیکس ایک سکول کا استاد یا چھوٹا بزنس مین ادا کرتا ہے اخبار کے یہ چار صفحات ایک ایسے شخص کی کہانی بیان کرتے ہیںجو زندگی بھر ہوا کے گھوڑے پر سوار رہا جس نے کبھی شکست تسلیم نہیں کی جس نے ہمیشہ اپنینگاہ کامیابی کے انعام پر رکھی جو دو مرتبہ دیوالیہ ہوا مگر اسکے باوجود بینکوں سے لمبے چوڑے قرض لیکر کاروبار کرتا رہا یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ بینکوں نے ایک دیوالیہ شخص کو قرض کیوں دئے اسکا جواب یہ دیا گیاہے کہ مین ہٹن کے وسط میں واقع ٹرمپ ٹاور ایک ایسی گرانقدر عمارت ہے جسے گروی رکھ کر بیش بہا قرض لیا جا سکتا ہے اور بینک اگر ایکمرتبہ خطیر رقم قرض دیکر پھنس جائے تو پھر ہاتھی کے پاﺅں میں سب کا پاﺅں والی بات ہو جاتی ہے پھر قرض دینے والا اور مقروض ایک ہی کشتی کے سوار ہوتے ہیں دونوں نے ہر صورت کشتی کو ڈوبنے سے بچانا ہوتا ہے اگر منگل کی رات ہونیوالی صدارتی ڈی بیٹ اور جمعے کے دن کورونا کی وائٹ ہاﺅس پر دستک نہ ہوتی تو ٹیکس ریٹرن کا معاملہ ایسا بم شیل تھا جسکی باز گشت عالمی میڈیا میں ابھی تک سنائی دے رہی ہوتی مگر اب تو صدارتی ڈی بیٹ بھی قصہ پارینہ ہو چکی ہے اب اگر پرانے واقعات کا ذکر آئیگا تو کورونا اور ٹرمپ کی کشمکش کے حوالے سے ہی آئیگا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری کے مہینے سے ہی کورونا وائرس کو جوتی کی نوک پر رکھنا شروع کر دیا تھا کورونا اب تک دو لاکھ آٹھ ہزار امریکنوں کی جان لے چکا ہے مگر صدر امریکہ اسکی تباہ کاریوں کو تسلیم نہیں کر رہے وہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ One day, it is like a miracle, it will go away. یعنی ایک دن معجزہ ہو گا اور یہ بیماری غائب ہو جائیگی فیس ماسک کے بارے میں وہ اکثر یہ کہتے ہیں کہ I dont see it for myselfیعنی یہ میرے لئے نہیں ہے ہسپتال جانے تک وہ اس مﺅقف پر قائم رہے کہ Disinfectant knocks out the virus in a minuteیعنی بلیچ اس وائرس کو ایک منٹ میں ختم کر دیتی ہے وائٹ ہاﺅس کی کورونا ٹاسک فورس جو صدر ٹرمپ نے خود قائم کی ہے کے سائنسدان کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ جب تک ویکسین ایجاد نہیں ہوتی فیس ماسک اور سماجی فاصلہ کورونا کے خلاف اہم ترین ہتھیار ہیں مگر یہ دونوں دفاعی تدابیر ٹرمپ وائٹ ہاﺅس کے کلچر کا حصہ نہیں ہیں اخبارات کے مطابق صدر ٹرمپ کے مشاہیر اور معاونین انکے سامنے ماسک پہن کر نہیں جاتے کیونکہ وہ اپنے باس کو ناراض نہیں کرنا چاہتے صدر ٹرمپ کبھی کبھار عوامی مقامات پر ماسک پہنے ہوے نظر آتے ہیں مگر اس تکلف سے وہ اس حد تک نالاں ہیں کہ پہلے صدارتی مباحثے میں انہوں نے جوزف بائیڈن کا مذاق اڑاتے ہوے کہا کہ یہ شخص دو سو فٹ کے فاصلے سے لوگوں سے خطاب کرتا ہے اور اسنے اتنا بڑاماسک پہنا ہوتا ہے جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا یہاں یہ سوال اہم ہے کہ صدر ٹرمپ ماسک کی اتنی مخالفت کیوں کرتے ہیںدانشوروں نے اسکا جواب یہ دیا ہے کہ وہ 74 سال کی عمر میں بھی اپنے آپ کو جسمانی طور پر ایک ناقابل شکست شخص کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیںوہ سمجھتے ہیں کہ ماسک کمزور لوگ پہنتے ہیں اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اگر کورونا کو ایک طاقتور وائرس کے طور پر قبول کر کے ماسک پہننا شروع کر دیں تو پھر وہ سکول‘ کالج‘ریسٹورنٹ‘ شادی ہال اور کاروباری اداروںکو کھلا رکھنے کے احکامات نہ دے سکیں گے یوں اکانومی وہ نتائج نہ دے سکے گی جو صدر ٹرمپ کو الیکشن جیتنے کیلئے جلد از جلد مطلوب ہیںاسکے علاوہ وہ جلسوںسے خطاب بھی نہ کر سکیں گے ۔اب جبکہ وہ ہسپتال میں ہیں اور مخالفین بھی انکی صحتیابی کی دعا کر رہے ہیںتو کیا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ تنہائی کے لمحات میں کچھ مشاہدہ ذات اور دروں بینی کریں گے ہسپتال کی تنہائی ہر مریض کو موقع دیتی ہے کہ وہ ماضی سے رجوع کرے اور اصلاح احوال کی کوشش کرے میں خود بھی معدے کی بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں رہنے کے مراحل سے گزرچکاہوں میرا مشاہدہ ہے کہ بیماری جسم کے اندر داخل ہو جائے تو یہ اندر اور باہر دونوں دنیاﺅں کو بدل دیتی ہے یہ زندگی کو بدل دینے والا یا Life altering event ہوتا ہے جسکے بعد زندگی پہلے جیسی نہیں رہتی آجکل تو جو لوگ کورونا سے متاثر نہیں ہوئے وہ بھی زندگی کو ایک مختلف انداز میں دیکھ رہے ہیں وہ سوچ رہے ہیں کہ زندگی گزارنے کے بہتر اور محفوظ طریقے کیاہوسکتے ہیں کیا اب پرانی ڈگر پر چل کر زندگی گزاری جا سکتی ہے لوگ یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ کیا صدر ٹرمپ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے وہ ہسپتال سے واپسی پر حالت انحراف سے نکل کر حقائق کی دنیا میں آ جائیں گے کیا وہ اگلے ایک ماہ میں انتخابات سے پہلے قوم کو تقسیم کرنے کی بجائے متحد کرنے کی کوشش کریں گے کیا وہ تشدد آمیز الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتیں گے کیا وہ ماحولیاتی تبدیلی اور دوسرے سائنسی حقائق کو تسلیم کر لیں گے اگر باقی کے دو مباحثے ہوتے ہیں تو کیا وہ اس فورم کو ایک اکھاڑہ بنانے کی بجائے جوزف بائیڈن کو عزت و احترام سے مخاطب کریں گے کیاوہ باقی کے تیس دنوں میںبیرونی دنیا میں قومی وقار کو مزید ٹھیس پہنچانے سے گریز کریں گے ان سوالات کا جو جواب اب تک سامنے آیا ہے وہ یہی ہے کہ نرگسیت ایک ایسی ذہنی بیماری ہے جو حقائ±ق کے راستے کی دیوار بن جاتی ہے اسمیں چھید کرنا آسان نہیں ہوتا اسنے بہت سی کمزوریوں کو جارحیت کی دبیز تہہ میں چھپایا ہوتا ہے ٹرمپ کے بڑے بول ‘ اسکی متکبرانہ باتیں‘ صدارتی طاقت کا بیجا استعمال اور اسکی خود پسندی اسکے وفاداروں کو بہت پسند ہے وہ اسے امریکی طاقت اور عظمت کا استعارہ سمجھتے ہیں کیا یہ سب کچھ ہوا میں تحلیل ہو جائیگا کیا ڈونلڈ ٹرمپ صحتیاب ہو کر ایک نئے روپ میں سامنے آئیں گے دانشور کہہ چکے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے تو پھر اس المیے کے سبق کیا ہیں سب سے واضح یہ کہ کورونا وائرس ایک بڑی حقیقت ہے اسکو تسلیم کئے بغیر اسکا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اس سے لا پرواہی برتنا تباہی کو دعوت دینے والی بات ہے دوسرا سبق یہ کہ کسی بھی ملک کی حکمرانی کوئی ریالٹی شو نہیں ہے جسمیں حقائق کو جھٹلا کر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے حقائق ‘ سچائی اور سائنس کی مخالفت ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتی ڈونلڈ ٹرمپ کورونا وائرس کی تضحیک کرتا رہا اور اب یہ حقیقت اسکے اندر داخل ہو چکی ہے ٹرمپ کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ خدائے بزرگ و برتر کی عظمت اور انسان کی عاجزی اور کمزوری کو تسلیم کر لے ہم ماضی کی غلطیوں کا ازالہ اگر نہیں کر سکتے تو مستقبل میں تو ان سے گریز کر سکتے ہیںٹرمپ چاہے تو اس بیماری کو ایک ویک اپ کال سمجھ سکتا ہے اس بیماری نے اسے موقع دیا ہے کہ وہ یہ سوچے کہ آج وہ جس کرب سے گزر رہا ہے دنیا میں کروڑوں لوگ اسی کرب سے گزر رہے ہیں میری دعا ہے کہ وہ صحتیاب ہو اور باقی کے ایام حکمرانی میں اپنے اختیارات کو انسانی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کرے۔