ریڈیو کی سربراہی سے پہلے

ریڈیو پاکستان کے سابق سربراہ آغا ناصر خود ریڈیو سیٹ دیکھنے اور سننے کے حوالے سے اپنی کہانی کچھ اس طرح بیان کرتے ہےں کہ کراچی میں ہم سرکاری کوارٹروں میں رہتے تھے ابھی تک بجلی نہےں آئی تھی کپور تھلہ کے ایک صاحب کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے وہ ہمارے کوارٹر سے تین بلاک آگے رہتے تھے انہوں نے برآمدے کے سامنے پھولوں کی کیاریاں اور بیلیں لگا کر سجایا ہوا تھا ایک کتا بھی پالا ہوا تھا ابھی مارٹن روڈ ایک اندھیری بستی تھی یہاں بجلی نہےں تھی اگرچہ کام بڑے زور شور سے ہورہا تھا ساتھ والی واحد سڑک پر بجلی کے کھمبے نصب تھے اور ان میں کچھ پر بلب لگے ہوئے تھے ایک روز شام کے وقت ہم نے دیکھا کہ وہ صاحب اپنے سالے کے کاندھوں پر ایک بڑا سا ریڈیو سیٹ اٹھوائے سڑک کی طرف جارہے ہےں ہمیں دلچسپی پیدا ہوئی کہ جانے یہ کیا کرنے والے ہےں پھر سڑک کے کنارے پہنچ کر انہوں نے ریڈیو سیٹ زمین پر رکھ دیا اور اپنے سالے کو پاور پلگ اور بجلی کے تاردے کر کھمبے پر چڑھا دیا اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے بجلی کی تاروں سے کنکشن لے کر ریڈیو لگا دیا اور آن کردیا‘میں قریب کھڑا یہ دیکھ رہا تھا اور خوش ہورہا تھا ریڈیو چل پڑا اور میری دلی آرزو پوری ہوگئی کہ خبروں کے علاوہ ریڈیو پر موسیقی اور ڈراموں کے پروگرام بھی سن سکوں گا لوگ بہت مسرور تھے اور ان صاحب کو مبارکباد دے رہے تھے ان کے طفیل ریڈیو تک رسائی ہوئی پھر یہ روز کا معمول بن گیا کہ شام کووہ صاحب بڑے فخر سے اپنے سالے کےساتھ ریڈیو سیٹ لاکر لگاتے پروگرام اور خبریں سنتے ریڈیو رکھنے کے بعد سالا ایک بار پھر واپس گھر جاتا اور ایک چھوٹی سی میز اور کرسی لے کر آتا جو صرف ان صاحب کے لئے مخصوص ہوتی چودھری صاحب کی یہ سوغات ہم سب کے لئے بڑی نعمت تھی اور ان کی اس عنایت سے رات ہونے تک تین چار گھنٹے ہمارے لئے تفریحات کا ذریعہ بن گئے اسی ریڈیو پر ہم سب نے گیارہ ستمبر کو قائداعظم کی رحلت کی خبر سنی قائداعظم کی وفات ساری قوم کےلئے بے حد اندوہناک خبر تھی میں نے اگلے دن قائداعظم کا جنازہ دیکھا میں نے گرومندر کے بس سٹاپ پر کھڑے ہوکر جنازے کا جلوس دیکھا عین وہ میدان تھا جہاں ایک ٹیلے پر مزار کی تعمیر کےلئے جگہ مختص کی گئی تھی میں آہستہ آہستہ جلوس کےساتھ چلتا ہوا وہاں پہنچ گیا عجب منظر تھاپاکستان کے سارے بڑے سیاستدان ‘سینئر افسران وزیر‘مشیر اور مشہور شخصیات موجود تھےں میں اسوقت تک زیادہ تر لوگوں کو پہچانتا نہےں تھا مگر اخباروں میں لوگوں کی تصاویر دیکھی تھےں۔