کاریگروں کے ہاتھ خوبصورت چیزیں مارکیٹ میں لاتے ہیں لیکن اس کےلئے انہیںسخت محنت کرنا پڑتی ہے معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنے حیدر آباد کے سفر سے متعلق لکھتے ہیں۔حیدر آباد میں تین چیزیں کمال کی بنتی ہیں‘ ربڑی ‘ٹین کے بہت بڑے بڑے ٹرنک اور شیشے کی نازک نازک چوڑیاں بخار کی آمد آمد تھی اور منہ کا ذائقیہ ایسا ہو رہا تھا کہ جی ربڑی کی طرف ذرا سا بھی مائل نہ تھا۔ ٹین کے ٹرنک بنانے والوں سے ملا اور پوچھا کہ لوگ اتنے بڑے بڑے ٹرنک خرید کر کیا کرتے ہیں ان میں تو پورا کنبہ سما سکتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں لوگ اپنا سارا ساز و سامان رکھتے ہیں اور خصوصاً بیٹیوں کا جہیز ان ہی میں جمع کرتے ہیں۔اس تحر یر کے وقت سندھ میں شدید سیلاب کی جو کیفیت میںٹیلی ویژن پر دیکھ رہا ہوں اس میں دیکھا ہے کہ جان بچا کر سیلابی ریلے میں چلنے والے لوگ اپنے ساتھ وہی ٹین کے ٹرنک پانی پر تیراتے ہوئے لئے جا رہے ہیں۔ٹرنک تیر رہے تھے صاف ظاہر ہے کہ اب وہ مال و اسباب سے اور بیٹیوں کے جہیز سے خالی ہوں گے۔ حیدر آباد میں چوڑی بنانے والوں کی فیکٹریاں دیکھنے کا مجھے بڑااشتیاق تھا پتہ چلا کہ چوڑیاں تو شیشے کے بڑے کارخانے میں بنتی ہیں۔ کاریگروں کو سادہ اور بے رنگ چوڑیوں کی بڑی بڑی لڑیاں ملتی ہیں یہ لوگ انہیں کاٹ کر ایک ایک چوڑی الگ کرتے ہیں اور پھرٹانکا لگاکر خود ہی ان کی اصلاح میں ان کا منہ بند کرتے ہیں۔ میں ان کے چھوٹے چھوٹے کارخانے دیکھنے گیا کاریگر شعلوں کے آگے بیٹھے چوڑیاں کے منہ بند کر رہے تھے فضا میں آگ کی شدید تپش تھی ‘ میں نے ایک کاریگر سے کہا کہ آپ جن کی ٹھڑیوں میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں ‘ انہیں ائرکنڈیشن کیوں نہیں کرالیتے ۔ اس نے کہا کہ اول تو بیک وقت گرمی اور ٹھنڈک سے مزدور بیمار ہو جائیں گے دوسرے فضا ٹھنڈی ہو گی تو چوڑیوں کامنہ مشکل سے بند ہو گا۔میں شہر میں گھوم رہا تھا بقر عید قریب تھی۔ میں ایک بغلی گلی میں تھا کہ کہیں سے گولی چلنے کی آواز آئی دکانیں تیزی سے بند ہونے لگیں۔ لوگ دیکھتے دیکھتے منتشر ہو گئے۔ حیدر آباد میں جب میرے بخار نے شدت اختیار کی تو میں نے کراچی میں اپنی والدہ والے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ ابھی دریائے سندھ کے ڈیلٹا کا علاقہ دیکھنا باقی تھا۔ اوپر پہاڑوں اور میدانوں میں دریا کے مختلف روپ دیکھ آیا تھا ۔ جہاں آ کر دریا ہاتھ کی انگلیوں کی طرح پھیلتا ہوا سمندر میں اتر جاتا ہے ‘ اسے قریب سے دیکھنے کا مجھے یوں بھی اشتیاق تھا کہ دنیاکی ہر داستان کا انجام ہی کہانی کی گتھیاں کھولتاہے۔(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)