عمومی تاثر یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یا حکومتی مشینری ظالم اور طاقتور کی پ±شت پناہی کرتی ہے جبکہ مجبور و مظلوم کو دھتکارتی ہے۔ دو نہیں ایک پاکستان کا تصور یا منشور بھی اسی وجہ سے تیار کیاگیاتھا کہ اداروں میں اجارہ داری، اقربا پروری، افسر شاہی اور رشوت ستانی عُروج پر تھی۔ مہذب معاشروں میں حکومتیں انصاف پر مبنی تمام شہریوں کے حقوق کی محافظ ہوتی ہیں تاہم تیسری د±نیا کے ممالک میں معروضی حالات یکسر مختلف ہےں۔ سفارش اور رشوت ستانی کے کلچر کی وجہ سے جانبداری، خانزم اور وڈیرہ ازم اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے جبکہ طاقتور کو قانونی تحفظ سمیت حکومتی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہوجاتی ہے جس سے جرم اور مجرم دونوں اپنی جڑیں مضبوط کرلیتے ہیں۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سرکاری دفاتر میں اپنے من مانے چہیتے بھرتی کراکر عمربھر ان کی سرپرستی ہوتی تھی اور بدلے میں سرکاری افسر اپنے محسن کے عمر بھر کام آتا جبکہ محسن اپنے بھرتی شدہ شخص کی سرپرستی میں کوئی کسر نہ چھوڑتا۔یوں جب بالخصوص خیبرپختونخوا کی بات کریں تو2013 کے بعد سے ایک تحریک کی مانند حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے۔ اداروں کو خودمختار بنانا ایک پیچیدہ اور کٹھن عمل تھا تاہم قیادت نے اپنی دوراندیشی اور تسلسل سے مرحلہ وار اداروں سے سیاسی مداخلت کو ختم کیا اور ادارہ جاتی اصلاحات نے اپنی جڑیں پکڑنا شروع کر دیں۔ صحت‘ تعلیم اور پولیس کو پہلے مرحلے مےں 80/20 اصول کے مطابق ترجیح دی گئی۔ پولیس کے بارے میں د±نیا بھر میں ایک عمومی خیال یا تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ رشوت ستانی اور ظلم و بربریت کی داستانیں اس وردی کے پیچھے چھپے انسانوں کا وطیرہ ہے۔ تھانہ کلچر کو خودمختار بنانا اور سزا و جزا کے عمل کو ازسر نو تشکیل دینا ایک چیلنج سے کم نہ تھا تاہم پولیس کی استعدادکار بڑھانا اور پولیس کی کردار سازی سمیت سیاسی مداخلت کے خاتمہ کے دور رس ثمرات آنا شروع ہوچکے ہیں‘چھ اکتوبر2020 کی رات دس بجے اخترمنیر نے پولیس سٹیشن پڑانگ میں اڑھائی سالہ زینب کی گمشدگی کی اطلاع دی۔ اطلاع ملتے ہی ضلع بھر کی پولیس متحرک ہوئی اور لگ بھگ 110 اہلکاروں نے پورے علاقہ میں چھان بین شروع کردی۔ اگلے ہی دن کھیتوں کے درمیان ایک غیر معروف راستے سے گزرتے ہوئے پولیس کو ننھی زینب کی مسخ شدہ لاش ملی۔ سفاک درندے نے انتہائی بے دردی سے معصوم زینب کوجنسی درندگی کے بعد درانتی کے وار کرکے موت کے گھاٹ اُتارا تھا۔ خبر پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گئی اور ہرسر شرم سے جھکا ‘انسانیت شرمندگی سے دوچار اور ہر ذی شعور رنج و الم کا شکار۔ چارسدہ پولیس کی کمان ایک ماہر پولیس افسر محمد شعیب کے ہاتھ میں ہے اور ا±ن کی پیشہ ورانہ مہارت سے کسی طور صرف نظر ممکن نہیں تاہم یہ ایک اندھا کیس تھا۔ مردان رینج کے بہترین تفتیشی افسران کو چارسدہ پولیس کے حوالہ کیا گیا اور وزیراعلیٰ آفس سے پل پل کی معلومات لینا بھی پولیس کے حوصلہ کو نہ صرف بڑھارہی تھی بلکہ مزید مستعدی سے کام کرنا پڑا۔ پورے علاقے کے رہائشیوں کا ڈیٹا لیا گیا اور علاقہ کے نوجوانوں اور غیر شادی شدہ لوگوں کو تفتیشی عمل میں شامل کیا گیا۔ تقریباً 400 گھروں کی پروفائلنگ ہوئی اور جدید طریقوں سے تمام تفتیشی عمل آگے بڑھتا رہا۔ یہ ایک اٹل حقیقت تھی کہ چونکہ یہ اندھا کیس ہے لہذا اس معمہ کو حل کرنے میں وقت لگے گا لیکن حوصلہ مند پولیس اور حکومتی مشینری بہترین پریکٹسز اپنا کر لمحہ بہ لمحہ پیش رفت کرتی رہی۔ پولیس نے سافٹ سیل سٹریٹجی اپنا کر علاقہ کے ہرشخص سے پوچھ گچھ کی دوستانہ ماحول میں کیس کے شواہد اکٹھے کئے اور لوگوں سے تفتیش کی۔ ڈی این اے پروفائلنگ سمیت متعدد آپشنز کا استعمال ہوا اور یوں ملزم تک پہنچا جاسکا۔ فاترالعقل شخص تک پہنچنا اور ا±س سے سچ اُگلوانا بھی کسی معجزے سے کم نہ تھا لیکن ہماری مثالی پولیس نے ا±س کو دوست بناکر آلہ قتل برآمد کیا اور ساتھ ہی ساتھ بچی زینب کا جوتا بھی برآمد کروایا۔ اس پورے عمل کو انتہائی قریب سے مانیٹر کیا جاتا رہا تاکہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔ بالاخر ایک ہفتہ کے اندر اندر (تقریباً چھ دن میں) ملزم سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد کیس تھا تاہم مجر م جتنا بھی شاطر ہو، قانون کی نگاہوں سے نہیں چھپ سکتا۔ اس کیس کی مختلف زاویوں سے جانچ جاری ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا قلع قمع ہوسکے سب سے اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی مجرم جرم کے وقت یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی شاطری سے بچ پائے گا لیکن اب خیبر پختونخوا پولیس ہو یا دیگر ادارے سب متحرک ہیں اور جرائم پیشہ افراد کے گرد گھیرا تنگ ہوچکا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وسائل کی کمی ہے یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ اکا دکا واقعات سے پولیس کا مورال پست کروانے کی کوشش ہوتی ہے لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ خیبرپختونخوا میں مجرموں کا مستقبل اور حال تاریک ہے کوئی بھی مجرم ماورائے قانون فعل سے قبل یہ ہزار بار سوچے گا کہ وہ قانون کے شکنجے سے بچ نہ پائے گا۔