پیار و محبت والے لوگ

میں بشام سے چلنے لگا تو کسی نے کہا کہ مجتبیٰ صاحب سے ملے بغیر نہ جائیے گا۔ بشام کے بہت سے زمانے دیکھے ہیں اوربہت دنیا بھی دیکھی ہے انہوں نے ۔ یہ سنا تو میں نے بھی مجتبیٰ صاحب کو دیکھنے کی ٹھانی اور انہیں ڈھونڈنا بھی بہت آسان نکلا ۔ انکے گھر کی دہلیز عین شاہراہ ریشم پر ہے ۔ جس سڑک نے یہ پورا علاقہ کھول دیا ۔ ان کے مکان کا دروازہ اسی سڑک پر کھلتا ہے ۔ محمد مجتبیٰ صاحب بہت خلیق ‘ ملنسار اور پڑھے لکھے نکلے ۔ اوپر سے مہم جو ایسے کہ دینی تعلیم پانے کےلئے ان پہاڑوں سے اترے اور دلی جا پہنچے اور پھر روزگار کی تلاش میں برما چلے گئے وہیں شادی کی اورسارے بچے وہیں پیدا ہوئے ....آخر جی نہ مانا اور تقریباً چالیس برس کی عمر میں بال بچوں سمیت یہیں پہاڑوں میں لوٹ آئے ۔ میں نے محمد مجتبیٰ صاحب سے پوچھا کہ آپ جب پیدا ہوئے ‘ ان دنوں یہاں بشام میں پیدائش کا کوئی رجسٹر ہوتا تھا؟ کچھ یاد ہے آپ کو ‘ آپ کب پیدا ہوئے تھے؟ذہن پر زورڈالے بغیر فوراً بولے”1924ءمیں“اور یہیں اسی بشام میں “ اسی بشام میں‘ آپ نے بزرگ یہاں کیا کرتے تھے؟ یہ کوئی ایسا زمیندارہ کاکام کرتے تھے ۔ کھیتی مویشی کا ‘ ایسا ہی کام کرتے تھے ۔آپ بشام میں کتنی عمر تک رہے؟اس وقت والی سوات یہاں کا بادشاہ نہیں تھا ہر خاندان کے بڑوں کی حکمرانی تھی ان میں ایک خان ہوتا تھا ۔ ہر شخص اس کی رائے سے کام کرتا تھا ۔ جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے وہ بڑے اخلاق والے تھے اور مہمان نوازتھے ۔ آپس میں کچھ بھی ہو لیکن باہر سے کوئی آدمی آتا تھا تو اس کی بڑی خاطر اور عزت کی جاتی تھی۔ میں نے کہا چلیے یہ لوگ آپس میں لڑتے تھے مگر کیا یہ صحیح ہے کہ انگریزوں کو انہوں نے اس علاقے میں قدم نہیںرکھنے دئیے اور سفید فام حکمرانوں کو اس طرف آنے کی اجازت نہیں تھی ؟ وہ بولے جب انگریزوں کی بادشاہی تھی ‘ اس وقت انگریز اس علاقے میں نہیں آتا تھا ‘ انگریز کا نام سن کر اس علاقے والے متفق ہو جاتے تھے ۔میں نے مجتبیٰ صاحب سے پوچھا یہ تو بتائیے کہ یہ جو اتنا بڑا دریا سندھ شہر بشام کے قدموں کو چھوتا ہوابہہ رہا ہے اس دریا سے اس شہرکو کبھی کوئی فائدہ بھی پہنچا؟ ان کا جواب کچھ یوں تھا ۔ اس سے کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ کہیں اوپر کوئی پہاڑ ٹوٹ کر دریا میں گرتا تھا تو اس سے دریا بند ہو جاتا تھا اوربڑی جھیل بن جاتی تھی۔ وہاں سے انگریزوں کے ہوائی جہاز گرتے تو خبر ملتی کہ دریا بند ہو گیاہے۔ آپ لوگ جو دریا کے کنارے بستے ہیں ‘ جان ومال سے ہوشیار رہیں۔ ایک مرتبہ تو دریا میں اتنا شدید سیلاب آیا کہ یہ جگہ جہاں آپ بیٹھے ہیں ‘یہاں بھی پانی تھا۔ گفتگوختم ہوئی ‘ ہم بغلگیر ہوئے ۔ باہر سڑک پر بڑے بڑے ٹرک چین کی طرف چلے جا رہے تھے اور نشیب میں دریائے سندھ آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا ۔ اس میں کچھ ایسا سکوت اور ایسا سکون تھا جیسے وہ اپنی گردن پر کوئی الزام لینے کو تیار نہ ہو ۔ (رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے انتخاب)