وائٹ ہاﺅس میں انتشار

صدر ٹرمپ کا وائٹ ہاﺅس انکی صدارت کے پہلے دن ہی سے بحرانوں کی زد میں رہا ہے ان میں سے زیادہ تر بحران انکی متلون مزاجی‘ ہٹ دھرمی اور خود پسندی کی وجہ سے پیدا ہوئے‘ تین نا تمام جنگیں انہیں براک اوباما سے ورثے میں ملیں وہ ابھی تک جاری ہیںمڈل ایسٹ پہلے سے کہیں بڑی دلدل میں دھنس چکا ہے اسکے باوجود صدر ٹرمپ کی عجوبہ روزگار شخصیت اسقدر امریکی میڈیا پر چھائی ہوئی ہے کہ اسے دنیا کے کسی دوسرے خطے کی خبر ہی نہیںعرب امارات اور اسرائیل کی دوستی کی خبر چند دنوں تک مین سٹریم میڈیا میں گردش کرتی رہی اسکے بعدوائٹ ہاﺅس کے شب و روزگھن گرج کیساتھ لوٹ آئے اس طرح کی صورتحال پہلے کبھی دیکھنے میں نہ آئی تھی امریکہ باہر کی دنیا سے اتنا بے نیاز پہلے کبھی نہ ہوا تھا امریکی میڈیا میںخارجہ پالیسی ہمیشہ سے اہم ترین مسئلہ چلی آرہی تھی داخلی بحران قومی اخبارات میں اندر کے صفحات میں نظر آتے تھے پھر صدر ٹرمپ نے سب کچھ بدل کے رکھ دیاسب جانتے ہیں کہ امریکہ ایک طاقتور ملک ہے اور اسکا صدر دنیا کی طاقتور ترین شخصیت ہے مگر تین بڑی اور طویل جنگوں میں ملوث ہونے کے باوجود دنیا بھر میں عام تاثر یہی تھا کہ امریکہ کا ہر صدر ذمہ دار‘ سنجیدہ‘ فرض شناس اور عوام کو جوابدہ ہوتا ہے مگر صدر ٹرمپ نے اس تاثر کو زائل کر دیا ہے یورپ امریکہ سے لا تعلق ہو چکا ہے اسے انتظار ہے کہ کب کوئی نیا صدر پرانی دوستی کے ٹوٹے ہوے سلسلے کو بحال کرتا ہے عراق شام اور افغانستان کی جنگیں جاری ہیںڈونلڈ ٹرمپ کی افتاد طبع اسے خارجی معاملات کی طرف جانے نہیں دیتی فلسطین مکمل طور پر امریکہ سے مایوس ہو چکا ہے چین پر ایک ایسی تجارتی جنگ مسلط کر دی گئی ہے جو امریکہ اور دنیا بھر کی اقتصادیات کیلئے ایک ڈراﺅنا خواب ہے امریکہ کی اپنی اقتصادی حالت دگر گوں ہے بیروز گاری اگر چہ چودہ فیصد سے کم ہو کر نو فیصد پر آگئی ہے مگر کورونا وائرس سے پہلے یہ صرف چار فیصد تھی چھوٹے کاروبار دھڑا دھڑ بند ہو رہے ہیں اور بیروز گاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈر گزشتہ چار ماہ سے کسی ریلیف پیکج پر متفق نہیں ہو رہے عوام کی نگاہیں وائٹ ہاﺅس پر لگی ہیں کہ کب وہاں سے کوئی اچھی خبر آتی ہے لیکن آجکل صدر ٹرمپ کی صحت‘ بر افروختگی اور بیانات ہی سب سے بڑی خبر ہیں میڈیا نے لوگوں کو ایک طاقتور شخصیت کے حصار میں جکڑ دیا ہے لیکن میڈیا انتشار کی دلدل میں پھنسے ہوے وائٹ ہاﺅس سے لا تعلق بھی نہیں رہ سکتا اسنے ہر روز یہ خبر دینی ہوتی ہے کہ سفید محل میں کیا ہو رہا ہے بادشاہ سلامت کا موڈ کیسا ہے آج کس کی شامت آئی ہے کل کس پر نزلہ گرے گا اسے نیو نارمل کہا جا سکتا ہے یہ صورتحال ایک طویل عرصے سے چلی آرہی ہے کورونا وائرس جیسی طاقتور عفریت بھی اسے بدلنے میں ناکام رہی ہے صدر ٹرمپ اگر اس وبا کو سمجھداری سے ہینڈل کر لیتے تو آج دوسری مدت صدارت جیتنا انکے لئے مشکل نہ ہوتا مگر دو لاکھ تیرہ ہزار امریکیوں کو اپنی کوتاہ اندیشی اور ناقص پالیسیوں کی بھینٹ چڑھانے کے بعد بھی وہ اپنی اس ضد پر قائم ہیں کہ انکی حکومت نے بڑی کامیابی سے اس خطرناک وبا کا مقابلہ کیا ہے اور کوئی بھی دوسری حکمت عملی زیادہ تباہ کن ثابت ہو تی۔صدر امریکہ نے گزشتہ ہفتے چار دن اور تین راتیں والٹر ریڈ ملٹری ہسپتال میں گزاریںاسکے بعد انکے ناقدین بھی یہ امید کر رہے تھے کہ اب وہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا اعتراف کر کے اپنی پالیسی تبدیل کریں گے اور سائنسدانوں کے بتائے ہوئے راستے پر چلکر نقصانات کم کرنے کی کوشش کریں گے مگر صدر ٹرمپ ہوا کے جس گھوڑے پر سوار ہیں اسکی رفتار اور سمت کا تعین کسی کے بھی بس کی بات نہیں میری لینڈ کے ہسپتال سے واپسی کے بعد چھ اکتوبرکی صبح جب صدر ٹرمپ بیدار ہوئے تو وائٹ ہاﺅس ایسی افراتفری کا شکار تھا جو یہاں کام کر نیوالے صحافیوں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی صدر ٹرمپ پہلے سے زیادہ گرجدار آواز میں بات کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر انکی سانس بار بار پھول جاتی تھی اخبارات کے مطابق وائٹ ہاﺅس کا ویسٹ ونگ جہاں اوول آفس کے علاوہ درجنوں دیگر دفاتر بھی ہیں تقریباّّ خالی پڑا تھا صدر کے معاونین اور مشاہیر بہت کم تعداد میں تھے ان میں سے چودہ افراد کورونا وائرس کا شکار ہو کر کوارنٹین میں جا چکے تھے اکثریت گھروں میں آن لائن کام کر رہی تھی وائٹ ہاﺅس میں درجنوں کی تعداد میں رپورٹر کام کرتے ہیں انکی Correspondent Association کے صدر نے حکام کو اطلاع کر دی تھی کہ وہ صدر امریکہ کے جہاز ایئر فورس ون میں اسوقت تک سفر نہیں کریں گے کہ جب تک انہیں اسمیں کورونا وائرس سے بچاﺅ کے اقدامات پر مکمل عملدر آمد کا یقین نہیں دلایا جاتاواشنگٹن پوسٹ نے وائٹ ہاﺅس کو دارلخلافے کا مشہورکورونا ہاٹ سپاٹ قرار دے دیا تھا صدر ٹرمپ نے اپنے چیف آف سٹاف Mark Meadows کو خصوصی ہدایات دی تھیں کہ وہ انکی صحت کے بارے میں اخبار نویسوں کو مثبت اور حوصلہ افزا بریفنگ دے یہ تاثر اسلئے ضروری تھا کہ ایک صحتمند‘ مضبوط اور طاقتور صدر ہی دوسری مدت صدارت کا الیکشن جیت سکتا تھا لیکن مدتوں سے وائٹ ہاﺅس کی رپورٹنگ کرنیوالے صحافی جانتے تھے کہ اصل صورتحال نہایت مختلف تھی کورونا وائرس وائٹ ہاﺅس میں پنجے گاڑھ چکا تھا صدر ٹرمپ کو جو دوائیاں دی جا رہی تھیں ان میںsteroid اور dexamethasone بھی شامل تھیں جو کورونا کے ایسے مریضوں کو دی جاتی ہیں جنکی حالت خطرے سے باہر نہ ہوان ادویات کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ عارضی طور پر انرجی لیول کو بلند کر دیتی ہیںاس غیر مستقل صورتحال کو بھانپتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جوزف بائیڈن کیساتھ اپنا دوسرا صدارتی مباحثہ یہ کہہ کر کینسل کر دیا کہ وہ کسی ورچوئل ڈی بیٹ میں حصہ نہیں لینا چاہتے اور مد مقابل ایک ہی جگہ پر آمنے سامنے نہ ہوں تو مذاکرہ بے معنی ہو جاتا ہے۔واقفان حال کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اور انکے سٹاف کو نوشتہ دیوار صاف نظر آرہا ہے متعدد سرویز کے مطابق صدر ٹرمپ مڈویسٹ اور جنوبی ریاستوں میں جو بائیڈن سے چار سے آٹھ پوائنٹس پیچھے ہیںان ریاستوں میں مشی گن‘ وسکانسن‘ نارتھ کیرولائنا اور فلوریڈا شامل ہیں صرف اوہایو اور پنسلوینیا میں مقابلہ سخت ہے ان 6ریاستوں کا کردار ہر صدارتی الیکشن میں فیصلہ کن رہا ہے تین نومبر کو ہونیوالا الیکشن جوں جوں قریب آرہا ہے صدر ٹرمپ کے غصے اور سٹپٹاہٹ میں اضافہ ہو رہا ہے آٹھ اکتوبر کے دن انہوں نے اپنی کابینہ کے اراکین کو سخت برا بھلا کہا کہ وہ انکے احکامات پر عمل کرتے ہوئے انکے مخالفین کے خلاف تادیبی کاروائیاں نہیں کر رہے اٹارنی جنرل William Barr پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ انکے بار بار کہنے کے باوجود جوزف بائیڈن اور براک اوباما پر مقدمات قائم نہیں کر رہے وزیر خارجہ مائیک پومپیو پر برستے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسنے ابھی تک ہیلری کلنٹن کی ای میلز شائع نہیں کیں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے کی کارکردگی کو بھی انہوں نے مایوس کن قرار دیا۔وائٹ ہاﺅس کے انتشار کی آکاس بیل نے واشنگٹن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تمام جوائنٹ چیف آف سٹافس جن میںچیئرمین General Mark Milley بھی شامل ہیں کوارنٹین میں جا چکے ہیں ان میں سے ایک جنرل نے وائٹ ہاﺅس کی اس تقریب میں شرکت کی تھی جس میں کئی اہم عہدیدار کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے میڈیا کے مطابق یہ اسلئے ایک Alarming Development ہے کہ اب کورونا وائرس سول بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین افسروں سے ہوتی ہوئی ملٹری کی ہائی کمان تک جا پہنچی ہے ان جرنیلوں کو Heart of the country's national security apparatus کہا جاتا ہے اس تباہی اور انتشار کی زد سے جو بچا ہے وہ صدر ٹرمپ کی متلون مزاجی‘ بر افروختگی اور خود پسندی ہے یہ تکبرو استکبار بھی شاید تین نومبر کو جل کر راکھ ہو جائے۔