خواتین و حضرات! اب بندہ بندے سے ملنا پسند نہیں کرتا ہے‘ اس کا وہ پہلے سا رشتہ نہیں رہا ہے اور اب یہ تعلق اور رشتے ایک خواب بن چکے ہیں‘ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈھیر سارے ڈالر آجانے سے آپ Rich ہوجائیں گے‘ ہرگز ایسا نہیں ہوگا‘ آپ کے پاس پیسہ تو ہوگا لیکن آپ کی محرومیاں بڑھتی چلی جائیں گی‘ اس کا سدباب ابھی سے کرنے کی ضرورت ہے‘ بہاولپور میں ایک سکول ٹیچر حبیب اللہ صاحب تھے‘ وہاں ایک کرم الٰہی صاحب بھی تھے وہ بھی استاد تھے‘ وہ ایک ساتھ کافی عرصہ اکٹھے پڑھاتے رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد جدا ہوگئے‘ ان میں بڑا پیار تھا‘ کرم الٰہی صاحب لاہور آگئے جبکہ حبیب اللہ صاحب بہاولپور میں ہی رہے‘ وہ وہاں اپنا کام کرنے کے بعد رات کو بس پکڑ کر ساہیوال پہنچ گئے‘ ساہیوال بس سٹینڈ سے یکہ لے کر کرم الٰہی صاحب کے گاﺅں چک گ‘ ب یا ای‘ بی جو بھی تھا وہاں چلے گئے وہ اپنے یار قدیم کے گھر پر دستک دی‘ حبیب اللہ صاحب کہنے لگے کہ میں چائے تو لاری اڈے سے ہی پی آیا ہوں‘ چلیں اکٹھے چل کے نماز پڑھتے ہیں‘ (اس وقت فجر کی اذان ہورہی تھی) انہوں نے کہا کہ ملتان آیا ہوں ساہیوال قریب ہی ہے چلو کرم الٰہی سے مل آتا ہوں‘ خواتین و حضرات بہاولپور سے ملتان اتنا سفر نہیں ہے جتنا ملتان سے ساہیوال ہے لیکن وہ اس سفر کو ”قریب ہی“ کا نام دے رہے تھے‘ انہوں نے اپنے یار عزیز سے کہا کہ تم سے ملنا تھا مل لیا‘ تمہیں دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی اور اکٹھے فجر پڑھ لی اور اب میں چلتا ہوں‘ کرم الٰہی صاحب نے بھی کہا کہ بسم اللہ آپ کے دیدار سے دل خوش ہوگیا‘ جوں جوں انسان کے درمیان فاصلے ہوتے جارہے ہیں اور نظر نہ آنے والی دراڑیں پڑتی جاتی ہیں‘ انسان بیچارہ ان فاصلوں کو پیسوں کی کمی سے جوڑ رہا ہے اور اس نے سارا زور معاشی پوزیشن بہتر کرنے پر لگا رکھا ہے‘ میں سوچتا ہوں کہ اگر معاشی صورتحال اچھی ہوگئی اور انسانوں کا منہ ایک دوسرے کے مخالف رہا تو پھر ان پیسوں‘ ڈالروں کا آخر کیا فائدہ ہوگا؟ اس لئے ہمیں اپنے اپنے طور پر سوچنا پڑے گا کہ چاہے ایک دوسرے سے لڑائی ہوتی رہے لیکن وچھوڑا تو نہ ہو۔ (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)