یہ لداخ ہے ہمالیہ کے پچھواڑے ان گنت برفانی چوٹیوں سے پرے اور قراقرم کے پہاڑوں سے ادھر ‘یہ لداخ ہے خشک ‘پتھریلا‘ریتلا‘بنجر اور دیکھنے میں اجاڑ‘ یہ لداخ ہے اور اس کے بیچوں بےچ چاندنی کی رنگت جیسی دور تک چلی جانے والی ایک لکیر یہی سندھ ہے‘ دریائے سندھ اندر کہےں چینی تبت میں‘جھیل مانسرور کے پاس‘ کیلاش کے پہاڑوں سے یہ دریا یوں نکلتا ہے جیسے چھوٹے بچے کو ماں نے بنا سنوار کر کھیلنے کے لئے گھر سے باہر کردیا ہو کم سے کم مجھے تو یہ بچہ نظر آیا ایسا دریا جسے مےں پائنچے چڑھا کر ننگے پاﺅں پار کر گیا مگر یہاں کے لوگ کہتے ہےں کہ یہ گھر سے نکلا ہوا بچہ نہےں‘شیر کے منہ سے نکلا ہوا دریا ہے لداخ میں اس کا نام سنگھے کھبب ہے سنگھے یعنی شیر‘ کھبب یعنی منہ‘تبت سے نکل کر چھوٹے سے قصبے دم چک کے مقام پر یہ شیر دریا لداخ میں داخل ہوا تو میں اس صبح اسے دیکھ کر حیران رہ گیا‘ میں نے تو اسے نیچے وادیوں اور میدانوں میں دیکھا تھا سمندروں کی طرح کشادہ‘ طوفانوں کی طرح زور آور‘ چٹانوں سے ٹکراتا ‘وادیوں میں شو ر مچاتا ‘میدانوں کو جل تھل کرتا یہ دریا وہاں بارہ پندرہ ہزار فٹ اوپر لداخ کی ریتلی وادی میں کسی نوحیز لڑکی جیسا نظر آیا چپ چاپ ‘تھوڑا سا ملگجا مگر نیلگوں اور روپہلا اور پہاڑوں کے پیچھے سے ابھرنے والے سورج کی پہلی پہلی کرنیں گوتم بدھ کے روپہلے مجسموں کی پیشانیوں سے اپنا بدن چھو چھو کر یوں آہستہ سے دریا میں اتررہی تھےں جیسے کوئی بہت مقدس پانی میں پہلے آہستہ سے اپنے پیر کی انگلیاں ڈبوئے ‘پھر تلوے اور آخر میں ایڑیاں میں نے اس روز کرنوں کو دریا میں اترتے دیکھا تھا میں لداخ پہنچا تو اسے ویسا بالکل نہ پایا جیسا سوچا تھا ساری زمین سوکھی ہوئی ‘سارے پہاڑ برہنہ ان پر سے ڈھلک کر نیچے تک چلی آنے والی ریت جیسے بہی چلی آرہی ہو بادل اکا دکا بارش کا کہےں نام نہ نشان ‘بس ایک یہ میرا دریا اور اس کے کنارے کنارے چلی گئی ایک سڑک۔(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)