آزادی کیساتھ وطن عزیز میں ایک نئی زندگی کا آغاز ہوا اس دور کے حالات اور واقعات ہر کسی نے اپنے انداز میںلکھے معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر اپنے طرز تحریر کیساتھ لکھتے ہےں کہ یہ بالکل ابتدائی دور تھا میرے سب سے بڑے بھائی علی اشرف غوری‘ جنہےں ہم بھائی صاحب کہتے تھے اپنے دوستوں اور عزیزوں کا اتنا خیال رکھنے والے تھے کہ ان دنوں جو کوئی بھی میرٹھ سے آتا سیدھا بھائی صاحب کے چھوٹے سے کوارٹر میں آکر مقیم ہوجاتا اور پھر جب تک اسکا کوئی روزگار نہ لگ جائے یا کہےں اور ٹھہرنے کا بندوبست نہ ہوجائے انہی کے پاس رہتا ۔آنےوالوں میں ایک مہمان رئیس زادے تھے نیلی نیلی آنکھےں‘ بھورے بال‘ بالکل یورپین لگتے تھے معلوم نہےں کیوں سب کچھ چھوڑ چھاڑ اکیلے کراچی آگئے تھے بھائی صاحب کے برآمدے میں آکر فروکش ہوگئے اور مہینوں رہتے رہے بھائی صاحب نے انہےں ملازمت دلوانے کی بہت کوشش کی وہ لاڈوں کے پلے جہاں بھی جاتے بس ایک یا دو دن کام کرکے بھاگ آتے روزانہ صبح نہاد ھو کرکپڑے بدلتے ‘ خوشبو لگاتے اور گھر سے نکل کر خدا جانے کہاں جاتے تھے ایک دن عجب قصہ ہوا رات پچھلے پہر بھائی صاحب کے دروازے پر دستک ہوئی دو پولیس والے ان صاحب کو ساتھ لئے کھڑے تھے انہوں نے بتایا شام کو یہ ہوٹل کے ڈرائنگ روڈ پہنچے ‘مینو کارڈ منگایا ‘جو کچھ بھی آرڈر کیا جاسکتا تھا ‘کھانے پینے کے بعد جب بل آیا تو یہ ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہوگئے کہ میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہےں ہے پولیس نے بل کی ادائیگی نہ کرنے کی سزا کے طور پر حوالات میں بند کردیا سنا ہے وہ سارا وقت زار وقطار روتے رہے اب پولیس والے ان کو ساتھ لے کر بھائی صاحب کے گھر آئے اور پیسوں کی ادائیگی کا تقاضا کرنے لگے‘جب بھائی صاحب نے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا اس کا سبب انہوں نے یہ بتایا کہ میں نے بڑے عرصہ سے اس طرح کے کھانے نہےں کھائے تھے یہ کہہ کر وہ پھر زار وقطار رونے لگے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ان کا بل ادا کردیا جائے بھائی صاحب نے یہ سوچ کرکہ تفصیلی بات صبح ہو گی ان سے اس وقت کچھ نہےں کہا مگر اگلی صبح کو جب بھائی صاحب چاہتے تھے کہ ان سے بات کریں تو وہ گھر چھوڑ کر جاچکے تھے۔