نظر آرہا ہے کہ حالات پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف بڑھ رہے ہیں اس خلفشار میں آخر کب تک رہا جا سکتا ہے اس گہری کھائی کے دہانے سے واپسی کا راستہ بتانا کس کی ذمہ داری ہے حزب اختلاف اگر اس انتشار اور افراتفری کی ذمہ دار ہے تو لوگوں نے ان کے جلسوں میں بھرپور شرکت کیوں کی ملک کے چاروں صوبوں میںنمائندگی رکھنے والی ان گیارہ جماعتوں کو کب تک نظر انداز کیا جا سکتا ہے وہ دو سال سے حکومت کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں مگر انکی دستک پر کسی نے توجہ نہیں دی ان کی بات سننے کی بجائے انکی تضحیک کی گئی گرفتاریاں اور جیلوں میں ڈالنا روز مرہ کا معمول بن گیا دیوار سے لگ جانے کے بعد ان کے پاس عوام کے سامنے اپنا مقدمہ رکھنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہ تھا‘خان صاحب نے بھی 2014 میں کرپشن کا بیانیہ 126روز تک پیش کیا تھایہ نہیں کہا جا سکتا کہ پوری قوم ان سے متفق تھی وہ صرف اکتیس فیصد ووٹ لے کر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوے تھے باقی کے69 فیصد ان گیارہ جماعتوں کو ملے تھے جو آج پی ڈی ایم کی صورت میں ان کی حکومت کی سبکدوشی کا مطالبہ کر رہی ہیںگوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں کے بعد یہ تحریک مزید آگے بڑھتی نظر آرہی ہے حزب اختلاف کے علاوہ ہوشربا گرانی بھی ایک مضبوط اپوزیشن کی صورت میں حکومت کے سامنے کھڑی ہے حکومت ان چٹانوں سے ٹکرا تو سکتی ہے انہیں گرا نہیں سکتی۔
اس وقت کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس تصادم کا انجام کیا ہو گا کیا ملک کی موجودہ صورتحال اس ٹکراﺅ کی متحمل ہو سکتی ہے حکومت عوام کو مہنگائی کی دلدل سے نہیں نکال سکتی تو ایک مضبوط حزب اختلاف کا مقابلہ کیسے کرے گی ادارئہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ہفتے کے دوران چینی‘ آٹا‘ مرغی‘ انڈے اور ٹماٹر سمیت پچیس اشیا ضروریہ مزید مہنگی ہو گئی ہیںانڈہ سترہ روپے کا‘ پیاز ایک سو بیس روپے“ ٹماٹر دوسو روپے‘ چینی ایک سوبیس روپے اور آٹا نوے روپے کلو ہو چکا ہے بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں وزیر اعظم نے سترہ اکتوبر کو اسلام آباد میں ٹائیگر فورس کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اس مہنگائی کے جو جواز پیش کئے ہیں انہیں عذر گناہ بد تر از گناہ کہا جا سکتا ہے چھ سال پہلے کرپشن کو ختم کرنیکی جو تحریک شروع کی گئی تھی اب اس غبارے سے ہوا نکل چکی ہے لوگوں نے اب مایوس ہو کر دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے مگر اس طرف کی صورتحال بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔
گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں میں حکومت پر الزامات تو بہت لگائے گئے مگر یہ کسی نے نہیں بتایا کہ مہنگائی کے اس جن کو بوتل میں کیسے بند کیا جائیگاروپے کی گرتی ہوئی قیمت کیسے بحال ہوگی آئی ایم ایف کے قرضوں کی قسطوں میں کمی کیسے ہو گی حزب اختلاف کے پاس ملک کو اقتصادی خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کیلئے کوئی حکمت عملی ہے یاصرف الزام تراشیوں ہی سے لوگوں کو مسحور کیا جا رہا ہے۔تحریکوں کے ذریعے حکومتیں بدلنے کا سلسلہ کم از کم ساٹھ سال پرانا ہے ایوب خان کے دور میں بھی سیاستدانوں کو جوتی کی نوک پر رکھا گیا تھا ایبڈو بنا کر انکی تذلیل کی گئی تھی پھر انہی راندئہ درگاہ لیڈروں نےUDF یا یونائٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ بنا کر مرد آہن کی حکومت کا تختہ الٹ دیاانکے اپنے ہاتھ تو کچھ نہ آیا مگر حکومت تبدیل ہو گئی اسکے بعد 1977 میں قومی اتحاد نے بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلائی تو پیپلز پارٹی کی مقبول حکومت بھی انکے سامنے نہ ٹھر سکی اس تحریک میں بھی قومی اتحاد کے ہاتھ کچھ نہ آیا ضیاءالحق اگلے گیارہ برس کیلئے مسلط ہو گئے مگر حکومت تبدیل ہو گئی چشم فلک نے پھر MRDبنتے دیکھی جس کی طویل جہدو جہد کے نتیجے میں بینظیر بھٹو1988 میں وزیر اعظم بن گئیں۔اگلے گیارہ برس تک پیپلز پارٹی اور نواز لیگ ایک دوسرے کی حکومت گرانے کیلئے تحریکیں چلاتی رہیں اور کامیابی انکے قدم چومتی رہی پھر نئی صدی کے پہلے عشرے میں پرویز مشرف جیسے مضبوط حکمران کو بھی وکلاءکی تحریک لے ڈوبی ان تحریکوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے انہیں مخالفت اور تشدد سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔عمران خان نے سترہ اکتوبر کی تقریر میں کہا ہے کہ اب اپوزیشن ایک نیا عمران خان دیکھے گی سچ یہ ہے کہ اسوقت ملک وقوم کو جتنی ضرورت ایک نئے عمران خان کی ہے پہلے کبھی نہ تھی لیکن اس نئے عمران خان کو غصہ‘ انتقام اور اشتعال انگیزی چھوڑ کر حقائق کا صحیح ادراک کرنا ہو گاانہیں تسلیم کرنا ہو گا کہ چور ڈاکو اور لٹیرے والا بیانیہ اپنی تب و تاب کھو چکا ہے حالات بدل چکے ہیں خان صاحب کو بھی اپنے آپکو بدلنا ہو گا پرانا تیکھا پن اور تلخ نوائی اب کام نہیں آئے گی۔
بالا دست اور شہنشاہانہ انداز حکمرانی کا وقت گزر گیا دستک کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اب در وازہ کھولنا پڑیگا بات چیت کرنا پڑے گی اس سمجھوتے کے بغیر دوسرا کوئی راستہ نہیں کہا گیا ہے کہ زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے انگریزی کا مقولہ ہے کہ Life is a grand compromise زندگی ایک عظیم سمجھوتہ ہے یہ وقت کا تقاضہ بھی ہے صرف میاں نواز شریف کی اداروں کے خلاف تضحیک آمیز گفتگو کو بنیاد بنا کر پی ڈی ایم کو مسترد نہیں کیا جا سکتا مولانا فضل الرحمان بھی انتہا پسندی سے گریز کرتے ہیں وہ سب کو ساتھ لیکر چلنے کا ہنر جانتے ہیںاسے کافی سمجھتے ہوئے مسئلے کے حل کی طرف بڑھا جا سکتا ہے مگر یہ سب اس لئے آسان نہیں کہ خان صاحب کی خوئے انتقام اور انا بیچ میں حائل ہیں وہ اپنے ووٹروںکے لئے ناقابل تسخیر رہنا چاہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کرپشن کے بیانئے سے دستبردار ہونا ان کیلئے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے مگر وہ چاہیں تو یہ کڑوا گھونٹ پی کر ایک نیا عمران خان تخلیق کر سکتے ہیں بھٹو صاحب نے بھی قومی اتحاد کیساتھ بات چیت شروع کر کے انکی کئی شرائط مان لی تھیں اس کے باوجود ان کے ووٹر ان کے ساتھ تھے خان صاحب کو کبھی نہ کبھی یہ رسک لینا پڑیگا ورنہ نظر یہی آرہا ہے کہ تاریخ انہیں ایک ناکام وزیر اعظم کے طور پر یاد رکھے گی ہماری دعا ہے کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ لیں اور تاریخ کی مخالف سمت چلنے سے گریز کریںیہی بات شاعر نے یوں کہی ہے
تو اور خیال خاطر اہل وفا کرے
امید تو نہیںہے مگر ہاں خدا کرے