انتخابی مہم کے آخری مراحل

امریکہ کے ہر صدارتی انتخاب میں فلوریڈاکو فیصلہ کن حیثیت حاصل رہی ہے ‘ 2000 ءمیں جارج بش اور الگور کے درمیان اس ریاست میں مقابلہ اتنا سخت تھاکہ رات گئے تک ووٹوں کی گنتی میں یہ فیصلہ نہ ہوسکا تھاکہ فلوریڈا کے ووٹروں کی اکثریت کس کے ساتھ ہے اسکی بڑی وجہ دونوں طرف سے مسترد شدہ ووٹوں کی بڑی تعداد تھی یہ فیصلہ بلاخر سپریم کورٹ کو کرنا پڑا تھاجس نے جارج بش کو فاتح قرار دیا تھا اس انتخابی مقابلے میں فلوریڈا کی اہمیت اسلئے بڑھ گئی تھی کہ باقی کی اُنچاس ریاستوں میں دونوں امیدواروں کو ملنے والے الیکٹورل کالج کے ووٹ فیصلہ کن ثابت نہیں ہو رہے تھے فلوریڈا کے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی تعداد انتیس ہے انکی اہمیت اسلئے بھی زیادہ ہے کہ یہاں Winner Takes all کا اصول چلتا ہے یعنی جو زیادہ ووٹ لے گا وہ الیکٹورل کالج کے پورے انتیس ووٹ جیت لے گا فلوریڈا کا شمار کیونکہ سونگ سٹیٹس میں ہوتا ہے اسلئے کسی بھی صدارتی مقابلے میں آخری وقت تک پتہ نہیں چل سکتا کہ اس ریاست کا انتخابی معرکہ کون جیتے گا اسمرتبہ بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں دونوں سیاسی جماعتیں یہاں اخبارات کے علاوہ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ اشتہاروں پرد ل کھول کر پیسہ خرچ کر رہی ہیں صدر ٹرمپ کی ہار جیت کے بارے میں ریپبلیکن تجزیہ نگار بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اگر فلوریڈا نہیں جیت سکتے تو پھر ان کےلئے دوسری مدت صدارت حاصل کرنا ممکن نہ ہوگا دوسری طرف جوزف بائیڈن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ فلوریڈا میں شکست کے بعد بھی ان کیلئے وائٹ ہاﺅس کا راستہ کھلا رہیگا کیونکہ باقی کی پانچ Battle Ground States میں انکی پوزیشن بہتر ہے ۔چند روز پہلے فلوریڈا کے بڑے شہر Orlando میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ” فلوریڈا میں ہمیں ایک بڑی فتح حاصل ہو گی اور اسکے ساتھ ہی یہ معرکہ ختم ہو جائیگااسی لئے یہاں انکے مخالفین کیلئے ایک اور شکست نہایت ضروری ہے“ آرلینڈو ایئر پورٹ میں ہونیوالی اس ریلی میں لوگوںکی ایک بڑی تعداد نے جو ٹی شرٹس اور ہیٹ پہنے ہوے تھے ان پر لکھا تھا Keep America Great اور Make Liberals Cry Again یہ تصویر کا وہ رخ تھا جو صدر ٹرمپ دیکھ رہے تھے دوسرا رخ یہ ہے کہ بیشتر انتخابی سروے فلوریڈا کو ٹاس اپ کہہ رہے ہیں یعنی یہاں مقابلہ برابر ہے اس ریاست میں اب تک کورونا کی وجہ سے سولہ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد معمر لوگوں کی ہے وہ صدر ٹرمپ سے نالاں ہیں اس الیکشن کو صدر ٹرمپ کی صدارت پر ریفرینڈم کہا جا رہا ہے چار سال تک انہوں نے جو ہنگامہ آرائی کی وہ انکے ووٹروں کیلئے قابل برداشت ہے اور بعض انڈیپینڈنٹ ووٹر بھی انہیں در گذر کرنے پر آمادہ ہیں مگر کورونا وائرس کو جس بے حسی اور نا اہلی سے صدر ٹرمپ نے ہینڈل کیا اسے غیر جانبدار ووٹر نظر انداز کرنے پر آمادہ نہیں یہ وائرس اب تک امریکہ میں ایک لاکھ تیس ہزار لوگوں کی جانیں لے چکا ہے اور ماہرین کہہ رہے کہ سردیوں میں اسکی ہلاکت خیزی میں مزید اضافہ ہو گا دیکھا جائے تو زیادہ تر اس وائرس کی تباہ کاریوں ہی کی وجہ سے صدر ٹرمپ اسوقت تمام سخت مقابلوں کی ریاستوں میں دفاعی پوزیشن پر ہیںامریکہ اسوقت معاشی بحران‘ بیروزگاروں کی کثیر تعداد‘ نسلی تضادات اور صدارتی انتخابات جیسے مشکل مسا ئل میں پھنسا ہوا ہے اسلئے اسے ایک متحد رکھ سکنے والے مضبوط لیڈر کی ضرورت ہے صدر ٹرمپ آجکل ہر روز ریلیز سے خطاب کر رہے ہیں مگر انکی کسی بھی تقریر سے اتحاد اور یکجہتی کا پیغام نہیں مل رہا نہ ہی وہ معاشی مشکلات کے کسی حل کی بات کر رہے ہیں انکا سارا زور بیان جوزف بائیڈن اور ڈیموکریٹس کے لتے لینے پر صرف ہو رہا ہے اسکے برعکس سابقہ نائب صدر اپنی انتخابی مہم میں ملک کو درپیش گوناگوں مسائل اور انکے حل کی بات کرتے ہیں گذشتہ ہفتے مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں ایک Drive-in Rally یعنی کاروں میں بیٹھے ووٹروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوے انہوں نے کہا کہ This election is a battle for the soul of the nation یہ اگرچہ کہ ایک بلند آہنگ بات ہے مگر حقائق پر مبنی ہے اس ریلی میں ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کے نیوز چینلز پر دکھائے جانے والے خطاب سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت اپنی انتخابی مہم آگے بڑھا رہے ہیںوہ لوگوں کو اعتماد میں لینے‘ ساتھ لیکر چلنے اور ان پر بھروسہ کرنے کی بات کرتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ وہ اس الیکشن کو صدر ٹرمپ پر ریفرینڈم بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیںڈیٹرائٹ میں انہوں نے کہا کہ ” ہر کوئی جانتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کون ہے اب ہم نے لوگوں کو بتانا ہے کہ ہم کون ہیں“ صدر ٹرمپ نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوے کہا کہ لوگ جانتے ہیں کہ جو بائیڈن کون ہے وہ اپنے وقت کا پرانا نارمل واپس لانا چاہتا ہے اگر لوگوں کو یہ پرانا نارمل پسند ہوتا تو وہ مجھے لیکر نہ آتے اسکے ساتھ ہی وہ الیکشن کے چوری ہونے اور سازشی تھیوریوں پر اپنا زور بیان صرف کرتے ہیںانتخابی مہم کے ختم ہونے میں کیونکہ تقریباّّ ایک ہفتہ رہ گیا ہے اسلئے ریپبلیکن قیادت صدر ٹرمپ کی ان تقاریر پر سخت نروس ہو رہی ہے یہ بات میڈیا میں آچکی ہے کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے پاس اب اتنا سرمایہ نہیں ہے کہ وہ ملک بھر میں اپنی مرضی کے مطابق ٹی وی اشتہارات دے سکے اورصدر ٹرمپ کے دوروںپر ہونیوالے اخراجات برداشت کر سکے اسلئے اب ریپبلیکن پارٹی نے اس انتخابی مہم کو اپنے فنڈز دینا شروع کر دئے ہیںیہ الیکشن صرف صدر امریکہ کے چناﺅ کیلئے نہیں ہو رہے بلکہ اسمیں درجنوں سینیٹرز اور بیسیوںایوان نمائندگان کے امیدواروںکی ہار جیت کا فیصلہ بھی ہوگا اب تک کے بیشتر انتخابی جائزوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے ساتھ بہت سے ریپبلیکن امیدواروں کو بھی لے ڈوبیں گے ریاست نبراسکا کے ریپبلیکن سینیٹرBen Sasse جو اپنی سیٹ بچانے کی کوشش کر رہے ہیں نے اس الیکشن کو بلیو سونامی یعنی ایسا الیکشن کہا ہے جسمیں ڈیموکریٹس سب کچھ لے جائیں گے جوبائیڈن کی فتح کے عوامل میں سر فہرست خواتین کی بھرپور حمایت شامل ہے اسکے بعد سینئر سٹیزن جنہوں نے 2016میں بڑی تعداد میں ٹرمپ کو ووٹ دئے تھے مگر اس مرتبہ وہ ان سے بد ظن نظر آتے ہیں تیسری وجہ کالج کے ڈگری ہولڈرز ہیں جو پچھلے الیکشن میں زیادہ تر لا تعلق رہے تھے مگر اسمرتبہ ان میں جوش و خروش دیکھنے میں آ رہا ہے اسکے علاوہ تارکین وطن ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ سے ڈیموکریٹس کو ووٹ دیتی رہی ہے صدر ٹرمپ کا سب سے بڑا ووٹنگ بلاک سخت مقابلے کی ریاستوں میں دیہاتی ووٹرز ہیں جن میں اکثریت کالج کی ڈگری یافتہ نہیں ان رورل یا دیہاتی علاقوں کو ٹرمپ کنٹری کہا جاتا ہے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں غیر جانبدار ووٹروں کو متوجہ کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں اسلئے انہیں مکمل طور پر اپنی Base پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے انکا خیال ہے کہ انکے طرفدار ووٹروں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ وہ یہ الیکشن جیت سکتے ہیںدوسری طرف جو بائیڈن نے ووٹروں کے مختلف گروہوں کا ایسا اتحاد بنایا ہوا ہے جسکا پلڑا بھاری نظر آ رہا ہے بائیڈن کیونکہ فلوریڈا‘ پنسلوینیا‘ مشی گن‘ نارتھ کیرو لائینا‘ وسکانسن اور ایریزوناکی سخت مقابلے کی ریاستوں میں صدر ٹرمپ سے بہت زیادہ پیسہ خرچ کر رہے ہیں اسلئے انکی فتح کے آثار نمایاں ہیں مگرآخری فیصلہ ابھی نہیں ہوا یہ شاید تین نومبر کو بھی نہ ہو سکے مگر اسنے کبھی نہ کبھی تو ہونا ہے۔