تاریخی الیکشن

جوں جوں الیکشن قریب آ رہا ہے لوگوں کی پریشانی اور اضطراب میں اضافہ ہو رہا ہے دونوں جماعتوں کے حامیوں کے درمیان حائل خلیج بڑھتی جا رہی ہے ملک بھر میں اسلحے کی خریداری میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے صدر ٹرمپ کے جلسوں میں مسلح افراد کی موجودگی خوف و ہراس میں اضافے کا باعث بن رہی ہے مشی گن کی ڈیموکریٹک گورنر Gretchen Whitmer کو اغوا کرنے کی کوشش میں تیرہ افراد نو اکتوبر کو گرفتار کئے گئے تھے مشی گن ایک سونگ سٹیٹ ہے اور انتخابی سرویز کے مطابق ابھی یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہاں کون جیتے گا اس ریاست میں ریپبلیکن پارٹی کو یہ اعتراض ہے کہ گورنر گریچن وٹمر نے کورونا وائرس کیوجہ سے دوبارہ لاک ڈاﺅن کر کے کاروبارکو سخت نقصان پہنچایا ہے خاتون گورنر نے کہا ہے کہ شدت پسند گروہ نے انکے اغوا کا منصوبہ لاک ڈاﺅن کیوجہ سے نہیں بنایا تھا بلکہ وہ اپنی طاقت اور ناراضگی کا اظہار کرنا چاہتے تھے انکا کہنا ہے کہ شدت پسندی کی وبا صرف مشی گن تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک امریکی مسئلہ ہے انکی بات اسلئے درست ہے کہ مسلح ملیشیا گروہ مشی گن کے علاوہ اوہایو‘ وسکانسن اور نارتھ کیرو لائنا میں بھی سامنے آ چکے ہیں دو ورز پہلے نیو یارک کے کاروباری علاقے مین ہیٹن میں ایک گھنٹے تک دو غیر مسلح گروہوں میں ہاتھا پائی ہوتی رہی پولیس نے بروقت مداخلت کر کے سترہ افراد کو گرفتار کر لیا عام تاثر یہی ہے کہ الیکشن کا نتیجہ جو بھی ہویہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کیلئے نا قابل قبول ہو گا۔امریکہ میں اسلحہ کی خریداری میں اضافہ کوئی نئی بات نہیں ہے عام طور پر کسی ہجوم پر فائرنگ کے بعد خوف و ہراس میں اضافہ ہو جاتا ہے جسکی وجہ سے لوگ اسلحہ خریدنا شروع کر دیتے ہیںیا پھر یہ خبریں آنے لگیں کہ ڈیموکریٹس اسلحے کی خریداری کو کم کرنے کیلئے سخت قوانین بنانا چاہتے ہیںلیکن اس مرتبہ صورتحال نہایت مختلف ہے میڈیا میں ایف بی آئی کی شائع شدہ رپورٹ کے مطابق آجکل اسلحہ خریدنے والوں میں ایک بڑی تعداد پہلی مرتبہ اسلحہ خریدنے والوں کی ہے اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ سات مہینوں میں 15.1 ملین لوگوں نے اسلحہ خریدا ہے یہ تعداد گذشتہ سال انہی مہینوں میں خریدے جانے والے اسلحے سے اکانوے فیصد زیادہ ہے اسلح بیچنے والے دوکانداروں اور گن رائٹس گروپ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر خواتین اور سیاہ فام اسلحہ خرید رہے ہیںان خریداروں نے کہاہے کہ وہ برے وقت کیلئے تیار رہنا چاہتے ہیںاس سال مارچ اور اپریل میں کورونا وائرس کیوجہ سے بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا جسکے بعدلوٹ مار کی وارداتیں بھی کثرت سے ہونے لگیں اسکے بعد جبBlack Lives Matter کی تحریک تمام بڑے شہروںمیں پھیلنے لگی تو لوگوں نے خوفزدہ ہو کر اسلحہ خریدنا شروع کر دیا اسکے ساتھ ہی پولیس کے اختیارات کم کرنے اور بعض ریاستوں میں پولیس کو ختم کر کے سوشل ورکرز فورس بنانے پر بحث مباحثہ ہونے لگا تو لوگوں کو محسوس ہوا کہ اب انہیں اپنا دفاع خود کرنا پڑیگاریاست ورجینیا کے شہر رچمنڈ میں گذشتہ دنوں اسلحے کی فروخت کیلئے Nation's Gun Show منعقد ہوا اسمیں سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی ایک خاتون نے مقامی ٹیلیوژن کو انٹرویو دیتے ہوے کہا کہ ” اس ملک میں اسوقت جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھتے ہوے مجھے اکیلے گھر سے نکلنے میں خوف آتا ہے“ اس خاتون نے یہ بھی کہا کہ I want to be ready for anything گن سیفٹی ٹریننگ دینے والی خاتون De Rossa نے کہا کہ لوگ نروس ہیں اور وہ اپنے تحفظ کیلئے اسلحہ خرید رہے ہیں۔اسلحے کی وسیع پیمانے پر خریداری کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ووٹ ڈالنے کا جوش و خروش بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہے اب تک پورے ملک میںکئی مشکلات کے باوجود 89 ملین لوگ ووٹ ڈال چکے ہیں ان مشکلات میں کورونا وائرس اور طویل قطاریں شامل ہیں لاکھوں کی تعداد میں ڈاک میں موصول ہونیوالے ووٹ ابھی باقی ہیں ٹیکساس اور ہوائی میں اب تک ڈالے جانے ووٹوں کی تعداد 2016 کے الیکشن سے زیادہ ہو چکی ہے سخت مقابلے کی 6ریاستیں جن میں پنسیلوینیا‘ وسکانسن‘ مشی گن‘ نارتھ کیرولائنا‘ جارجیا اور فلوریڈا شامل ہیں میں اب تک پڑنے والے ووٹوں کی تعداد گزشتہ صدارتی الیکشن کا اسی فیصد بتائی جا رہی ہے اس الیکشن کو اسلئے بھی تاریخی کہا جا رہا ہے کہ اسمیں150 ملین سے زیادہ ووٹ پڑیں گے اتنی بڑی تعدادمیں ووٹ آج تک امریکہ کے کسی بھی صدارتی الیکشن میں نہیں ڈالے گئے ووٹروں کی تعداد میں اس اضافے نے بے یقینی کی فضا میں اضافہ کر دیا ہے درجنوں انتخابی جائزوں کے مطالعے کے بعد بھی یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور جوزف بائیڈن میں سے کون یہ معرکہ جیتے گا اگر چہ کہ زیادہ جائزہ رپورٹیں ٹاس اپ سٹیٹس میںجو بائیڈن کی برتری ظاہر کر رہی ہیں مگر بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق صدر ٹرمپ یہ برتری کم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں اسکی وجہ انکا ہر روز تین ریلیز سے خطاب کرنا ہے انکے مقابلے میں جو بائیڈن ہر روز صرف ایک ریلی سے خطاب کرتے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی جوش و خروش کا مظاہرہ چار سال پہلے کے الیکشن میں بھی کیا تھا اسکے بعد بمشکل تمام وہ پنسیلوینیا‘ مشی گن اور وسکانسن کی تین ریاستوں میں صرف اسی ہزار ووٹوں سے ہیلری کلنٹن کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے تھے اسمرتبہ ایک فرق یہ بھی ہے کہ انکے پرانے نعروں کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اب وہ میکسیکو کے بارڈر پر دیوار بنانے کی بات کرتے ہیں اور نہ ہی غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کا وعدہ کرتے ہیںگذشتہ دو ہفتوں سے انہوں نے چین کو تجارتی جنگ میں شکست دینے کے دعوے بھی کرنے چھوڑ دئیے ہیں ان میں سے ہر نعرے کے اپنے اپنے نقصان ہیں۔یہ الیکشن اسلئے بھی غیر معمولی بے یقینی کی فضا میں ہو رہا ہے کہ اب تک اگر چہ کہ ڈیمو کریٹس نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے ہیںمگر ہمیشہ کی طرح اسمرتبہ بھی زیادہ تر ریپبلیکن ووٹر الیکشن والے دن ہی ووٹ ڈالیں گے فلوریڈا جیسی اہم ریاست میںاب تک پڑنے والے ووٹوں میں سے چالیس فیصد ڈیموکریٹس کے ہیں جبکہ ریپبلیکن ووٹوں کی تعداد 37.9 فیصد ہے اگر تین نومبر کو ریپبلیکن بڑی تعداد میں ووٹ ڈالتے ہیں تو اس ریاست میں پانسہ پلٹ سکتا ہے اس الیکشن کے متنازعہ ہونے کے امکانات اسلئے بھی زیادہ ہیں کہ ملک بھر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے Absentee Ballots یعنی غیر حاضر ووٹ ڈالنے کی درخواستیں دی ہوئی ہیں اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ووٹر الیکشن والے دن اپنے پولنگ سٹیشن نہیں جا سکتا اور وہ کسی دوسری جگہ پر ہے تو وہ کسی بھی جگہ کے الیکشن آفس جا کے اپنی شناخت ثابت کرنے کے بعد ایک بیلٹ پیپر لے سکتا ہے جسے بھرنے کے بعد وہ اسے ڈاک کے ذریعے اپنے الیکشن آفس کو بھجوا سکتا ہے میڈیا کی اطلاعات کے مطابق جن لوگوں نے غیر حاضری کے بیلٹ پیپر لئے ہیں ان میں سے چھتیس ملین کے ووٹ ابھی تک موصول نہیں ہوئے ادھر بعض ریاستوں میں یہ تنازعہ بھی چل رہا ہے کہ تین نومبر کے بعدوصول ہونیوالے ووٹوں کو گنتی میں شامل کیا جانا چاہئے یا نہیںاس جلتی پر تیل کا کام کرنے کیلئے یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ صدر ٹرمپ الیکشن کی رات تمام نتائج آنے سے پہلے ہی اٹارنی جنرلWillian Barr کے ذریعے اپنی فتح کا اعلان کر دیں گے جو بائیڈن کے وکلا کی ٹیم نے اگر چہ کہ اس ڈرامائی صورتحال کے مقابلے کیلئے تیاری کی ہوئی ہے مگر یہ تاریخی الیکشن کئی اعتبار سے تصادم کی طرف بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔