جو بائیڈن کی صدارت

چار سال تک ایک قوم پرست اور مطلق العنان صدر کے نرغے میں رہنے کے بعد امریکنوں نے بالآخر اپنے ووٹ کی طاقت استعمال کر کے ایک ہیجان خیز دور کا اختتام کر دیا یہ کھائی سے واپسی کا سفر تھا تین نومبر کے الیکشن کا فیصلہ چار دن تک نہ ہو سکا سات نومبر کی صبح تک کسی کو معلوم نہ تھا کہ اگلا صدر کون ہو گاپھر پنسلوینیا کے حتمی نتائج آنے کے بعد یہ فیصلہ ہو گیا کہ جوزف بائیڈن نے یہ مقابلہ جیت لیا ہے اس ریاست کے بیس الیکٹورل ووٹ شروع ہی سے فیصلہ کن حیثیت رکھتے تھے الیکشن سے تین دن پہلے صدر ٹرمپ نے پنسیلوینیا میں ایک دن میں چار مختلف مقامات پر ریلیز سے خطاب کیا تھا جو بائیڈن کی انتخابی مہم کا ہیڈ کوارٹراسی ریاست کے شہر فلاڈیلفیا میں تھا اور اسی شہر سے انہوں نے کثیر تعداد میں ووٹ لیکر یہاں صدر ٹرمپ کو شکست دی تیرہ نومبر کو آخری نتائج آنے تک جو بائیڈن 306 الیکٹورل ووٹ حاصل کر چکے ہیںانکے مقابلے میں صدر ٹرمپ نے 232 الیکٹورل ووٹ لئے ہیں یہ ووٹوں کی وہی تعداد ہے جو2016 میں صدر ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن نے حاصل کی تھی اسوقت ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ انکی لینڈ سلائڈ وکٹری ہے مگر اب اسی تعداد سے شکست کھانے بعد وہ انتخابی نتائج ماننے سے انکار کر رہے ہیں دو روز پہلے تک ریپبلیکن پارٹی نے اپنے صدر کیساتھ ملکر پنسیلوینیا‘ ایریزونا‘ جارجیا ‘ مشی گن اور نواڈامیں انتخابی نتائج کو عدالتوں میں چیلنج کیا ہوا تھا آج کی خبروں کے مطابق پنسلوینیا اور نواڈا سے صدر ٹرمپ کی جماعت نے یہ مقدمات واپس لے لئے ہیں اس انتخابی جنگ کا عدالتوں میں جیتا جانا نہایت مشکل ہے صدر ٹرمپ ابھی تک کسی بھی ریاست میں دھاندلی یا فراڈ کا ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے جسے عدالتوں کیلئے قابل قبول کہا جا سکے انکے پاس اب کیونکہ فیس سیونگ کیلئے کوئی راستہ نہیں بچا اسلئے وہ یہ جنگ جاری رکھیں گے اور یوں یہ طویل عدالتی جنگ کئی ہفتوں تک امریکہ کے سیاسی منظر نامے پر چھائی رہے گی‘ ایک دلچسپ سوال یہ بھی ہے کہ یہ جنگ ہار دینے کے بعد بھی کیا صدر ٹرمپ وائٹ ہاﺅس چھوڑنے پر آمادہ ہوں گے یا نہیں ان تمام سوالوں کے جواب پندرہ دسمبر تک مل جائیں گے کیونکہ چودہ دسمبر کو الیکٹورل کالج کے اراکین ووٹ ڈالکر نئے صدر امریکہ کے انتخاب کی توثیق کریں گے صدر ٹرمپ اس فیصلے کو بھی مسترد کرتے ہوئے وائٹ ہاﺅس میں برا جمان رہنے پر اصرار کر سکتے ہیں مگر یہ طے ہے کہ وہ عوام کے ووٹ کی طاقت کا زیادہ دیر تک مقابلہ نہ کر سکیں گے۔اس حوالے سے چند سوال ایسے بھی ہیں جو بیس جنوری کی تقریب حلف وفاداری کے بعد بھی پوچھے جاتے رہیں گے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ٹرمپ ازم کا خاتمہ ہو گیا ہے یا نہیں صدر ٹرمپ نے تقریباّّ اکہتر ملین ووٹ لئے ہیں اتنے ووٹ آج تک جو بائیڈن کے علاوہ کسی صدارتی امیدوار نے نہیںلئے اس لئے ڈونلڈ ٹرمپ کہیں جاتے ہوئے نظر نہیں آرہے وہ یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ اگر انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا تو وہ 2024 میں دوبارہ صدارتی امیدوار ہوں گے لہذا یہ بات بھی طے ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاﺅ س چھوڑنے کے بعد بھی اپنا سیاسی سفر جاری رکھیں گے اور یوں وہ نئے صدر کیلئے مشکلات پیدا کرتے رہیں گے منتخب صدر امریکہ نے اگر چہ کہ 75 ملین سے زیادہ ووٹ لئے ہیں مگر جس ڈیمو کریٹک لینڈ سلائیڈ کی توقع کی جا رہی تھی وہ کہیں نظر نہیں آیا‘ ڈیمو کریٹک پارٹی کو الٹا لینے کے دینے پڑ گئے جو بائیڈن کی جماعت نے ایوان نمائندگان کی چھہ سیٹیں ہار دی ہیں اس چیمبر میں اسکی برتری 214سیٹیں لیکر اب بھی قائم ہے مگر یہ برتری اب پہلے سے کم ہو چکی ہے ریپبلیکن پارٹی نے اپنی سیٹیں بڑھا کر 195 کر لی ہیں سینٹ میں بھی ڈیموکریٹ ابھی تک اکثریت حاصل نہیں کر سکے فی الحال انکے پاس اس ایوان میں اڑتالیس جبکہ ریپبلیکن کے پاس پچاس سیٹیں ہیںسینٹ میں کون اکثریت حاصل کرتا ہے اسکا دارومدار جارجیا میںدو سیٹوں کے کانٹے دار مقابلوں کے بعد ہو گا یہ الیکشن پانچ جنوری کو ہوں گے ڈیموکریٹس اگرایوان بالا میں پچاس سیٹیں حاصل کر لیتے ہیں تو صدر بائیڈن کو اپنے ایجنڈے پر عمل درآمدکرنے میں قدرے آسانی ہو جائیگی بصورت دیگر ریپبلیکن پارٹی کیلئے انکی راہ میں روڑے اٹکانا آسان ہو گا ۔جو بائیڈن اپنے سینتالیس سال کے سیاسی کیرئر میںایک متحمل مزاج ماڈریٹ سیاستدان کے طور پر سامنے آئے ہیں وہ 6مرتبہ ریاست ڈیلا ویئر کے سینیٹر منتخب ہوئے اور آٹھ برس تک براک اوباما کے نائب صدر رہے انہیں واشنگٹن کے معاملات اور اہم شخصیتوں کو ذاتی طور پر جاننے والاسیاستدان سمجھا جاتا ہے ریپبلیکن لیڈروں سے جتنے مراسم جو بائیڈن کے ہیں کم ہی کسی دوسرے ڈیموکریٹ کے ہوں گے وہ سینٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیںامریکی خارجہ پالیسی کا وہ گہرا ادراک رکھتے ہیں وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران پیرس کے ماحولیاتی معاہدے میں امریکہ کی دوبارہ شمولیت کا اعلان کر چکے ہیں اس سمت میں پیشرفت یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار بنانے میں مدد دے گی اسکے علاوہ انہوں نے ایران کیساتھ ایٹمی معا ہدے کی تجدید کی بات بھی کی ہے ایران اسپر آمادہ ہوتا ہے یا نہیں اسکا انحصار تہران کے فیصلہ سازوں پر ہوگا ایران اپنی بے پناہ اقتصادی مشکلات کے پیش نظر اس کڑوی گولی کو دوبارہ نگلنے پر مجبور ہو سکتا ہے جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کیلئے یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ اوباما پارٹ تھری ہو گی صدر اوباما کی پوری فارن پالیسی ٹیم ایک مرتبہ پھر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں براجمان ہو گی اس ٹیم کا رویہ پاکستان کیساتھ نہایت کھردرا اور درشت تھاافغان جنگ کو ختم کرنے کے محاذ پر صدر ٹرمپ نے خاصی کامیابی حاصل کی ہے امریکی عوام کیونکہ جنگوں سے سخت بیزار ہو چکی ہے اسلئے صدر بائیڈن کو بہر صورت طالبان کیساتھ مذاکرات جاری رکھنا پڑیں گے اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے انہیں پاکستان کی ضرورت پڑے گی وزیر اعظم عمران خان جو بائیڈن کی فتح کے بعد انکی طرف دست تعاون بڑھا چکے ہیںاسلام آباد چین کیساتھ سی پیک منصوبے میں اس حد تک آگے جا چکا ہے کہ اب اس کیلئے واشنگٹن کیساتھ پہلے جیسے تعلقات رکھنا ممکن نہیں رہاصدر ٹرمپ نے اوباما انتظامیہ کی نسبت پاکستان سے بہت بہتر سلوک کیا اس دوستانہ رویے کی توقع بائیڈن کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے نہیں کی جاسکتی منتخب صدر بائیڈن افغان مذاکرات کو زیادہ دیر تک مﺅخر نہ کر سکیں گے اسلئے واشنگٹن اسلام آباد تعلقات کا اونٹ بھی جلدہی کسی کروٹ بیٹھ جائے گاصدر بائیڈن کے خارجہ پالیسی ایجنڈے میں امریکہ چین تجارتی جنگ کلیدی اہمیت رکھتی ہے انکے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چین کیساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں‘منتخب صدر کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ کورونا وائرس کا تدارک انکے ایجنڈے پر سر فہرست ہے اس کیلئے انہوں نے ملک کے بہترین ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی ایک ٹیم کا اعلان بھی کر دیا ہے صدر ٹرمپ نے جو کمزور‘ نحیف‘ غریب اور بیمار امریکہ جو بائیڈن کے حوالے کیا ہے اسکا علاج کوئی آسان بات نہیں یہ امریکہ کئی دھڑوں میں بری طرح بٹا ہوا بھی ہے اسے اکٹھا کرنا اور اسکی عظمت رفتہ کو بحال کرنا ایک ایسا امتحان ہوگا جسکے نتیجے پر پوری دنیا کی نظر ہو گی صدر ٹرمپ نے امریکہ کی شان و شوکت ہی کو نہیں اسکے جمہوری ادارں کو بھی منہدم کیا ہے یہ ادارے لرزہ بر اندام تو ضرور ہوئے مگر ٹوٹے نہیں اب یہ صدر بائیڈن کی ذمہ داری ہے کہ وہ امریکہ کی ساکھ اور ان اداروں پر عوام کا اعتماد دوبارہ بحال کریں اس اعتبار سے صدر بائیڈن کونا مساعد حالات سے مقابلہ کر کے اپنے ملک کو صدر ٹرمپ کی بنائی ہوئی دلدل سے نکالنا ہو گا ۔