چودہ نومبر تک صدر ٹرمپ کے مختلف ریاستوں مےں دائر کردہ انتخابی مقدمات میں سے اٹھارہ مسترد کئے جا چکے ہیں ‘پنسیلوینیا اور ایریزونا جہاں ریپبلکن پارٹی نے دھاندلی کا بہت شور مچایا تھا سے مقدمات ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے واپس لے لئے گئے ہیں ‘ہر گزرتے دن کیساتھ یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ صدر ٹرمپ یہ معرکہ نہیں جیت سکتے ‘سوال یہ ہے کہ یہ راستہ اگر ایک گہری کھائی کی طرف جا رہا ہے تو وہ اس پر چلنے پر کیوں مصر ہیں ‘ظاہر ہے انکی نرگسیت ‘ افتاد طبع اور شکست تسلیم نہ کرنے کی عادت اسکی اہم وجوہات ہیں اسکے علاوہ انکے ارد گرد ایسے خوشامدی مشاہیر اور دوستوں کا مجمع ہے جو انہیں شکست تسلیم نہ کرنے کا مشورہ دے رہا ہے ‘حکمران اچھا ہو یا برا اسے اچھے برے مشاہیر ملتے رہتے ہیں ‘کس کی بات سنی جائے اور کسے نظر انداز کیا جائے ‘یہ فیصلہ ہر حکمران نے خود کرنا ہوتا ہے اور پھر اسی فیصلے کے نتائج کو بھگتنا بھی ہوتا ہے اس سے جڑا ہوا سوال یہ بھی ہے کہ کسی بھی ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں آخر ایک ناکام اور نا اہل لیڈر کیساتھ اندھیرے راستے پر کیوں آگے بڑھتی رہتی ہیں ‘ہر ملک میں اس سوال کا جواب مختلف ہے امریکہ میںآج بھی ر ی پبلکن پارٹی اگر صدر ٹرمپ کا ساتھ دے رہی ہے تو اسکی چند ایسی وجوہات ہیں جن کاامریکی سیاست سے گہرا تعلق ہے ان میں سے پہلی وجہ یہ ہے کہ اس وقت سینٹ میں ری پبلکن پارٹی کی پچاس اور ڈیموکریٹک پارٹی کی اڑتالیس سیٹیں ہیں ریاست جارجیا میں سینٹ کی دو سیٹوں کا الیکشن پانچ جنوری کو ہو گا ‘یہ دو سیٹیںیا ان میں سے ایک بھی ری پبلکن پارٹی جیت لیتی ہے تو اگلے چار سال تک جو بائیڈن کو قانون سازی کے معاملے میں انکا تعاون درکار ہو گا اس تعاون کی صدر اوباما کو بھی سخت ضرورت تھی مگر ری پبلکن پارٹی نے ہمیشہ انہیں مایوس کیا جسکی وجہ سے کانگرس ڈس فنکشنل ہو گئی اور آج تک یہ صورتحال برقرار ہے صدر ٹرمپ کے چار سالہ دور صدارت میں ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی انکے ساتھ تعاون نہیں کیا اب اگر جارجیا میں ری پبلکن فتحیاب ہو جاتے ہیں تو وہ جو بائیڈن کو ناکام کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے لیکن جارجیا میں کامیاب ہونے کیلئے انہیں صدر ٹرمپ کے حمایتی ووٹروں کی ضرورت ہے جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں جو بائیڈن نے اگر چہ جارجیا میں برتری حاصل کی ہے مگریہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے طرفداروں کی بھی کمی نہیں ری پبلکن پارٹی جانتی ہے کہ وہ اس ریاست میں صدر ٹرمپ کی حمایت کھو کرسینٹ کی ایک سیٹ بھی نہ جیت سکے گی اسلئے وہ اپنے شکست خوردہ سپہ سالار کا ساتھ دینے پر مجبور ہے شاید ہاتھی کے پاﺅں میں سب کا پاﺅں والا محاورہ اسی قسم کی صورتحال کےلئے تخلیق کیا گیاہے ری پبلکن پارٹی کے بیشتر سینیٹر اور کانگرس مین اسلئے بھی چپ سادھے اپنے نا اہل اور بر خود غلط میر کارواں کی اطاعت کر رہے ہیں کہ ٹویٹر پر اسکے 88 ملین پرستار ہیں وہ سوشل میڈیا کے اس میدان کارزار میں اپنی سبکی اور تضحیک نہیں کروانا چاہتے اسلئے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق بھیڑ بکریوں کے غول کی طرح چرواہے کے اشارے پر چلنے پر مجبور ہیں یہ صورتحال گزشتہ چار سالوں سے چلی آ رہی ہے اور اگلے چار سالوں تک بھی یہ جاری رہتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔موجودہ صورتحال کے مطابق اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ صدر ٹرمپ کو بیس جنوری کے دن زبردستی وائٹ ہاﺅس سے نکلنے پر مجبور کیا جائے ‘عدالتوں میں انتخابی جنگ ہارنے کے بعد صدر ٹرمپ کے پاس سفید محل میں رہنے کا آئینی جواز ختم ہو جائیگاوہ جو بائیڈن کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کرتے ہیں یا نہیںاس دن وائٹ ہاﺅس کا سینکڑوں افراد پر مشتمل عملہ نئے صدر کے احکامات پر عملدر آمد کرنے کا پابند ہو گا یہ بات نوشتہ دیوار ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جلد یا بدیروائٹ ہاﺅس خالی کرنا ہو گا لیکن اسکا مطلب یہ نہ ہو گا کہ وہ دن ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست کا آخری دن ہو گااور نہ ہی وہ دن ٹرمپ ازم کے خاتمے کا دن ہو گا بلکہ اس دن کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پہلے سے زیادہ ڈھیٹ‘ ضدی اور ہٹ دھرم لیڈر کی صورت میں سامنے آئیگا وہ امریکی سیاست میں ایک طاقتور ‘ ہیجان خیز اور انتشار پیدا کرنیوالے لیڈر کے طور پر موجود رہیگا اس نے اس الیکشن میں 2016ءکے مقابلے میں چار ملین ووٹ زیادہ لئے ہیںاس مرتبہ لگ بھگ 146 ملین ووٹ پڑے ہیں جو امریکہ کی صدارتی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں پڑے ان میں سے ڈونلڈ ٹرمپ نے اڑتالیس فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں جو آج تک جو بائیڈن کے علاوہ کسی بھی صدارتی امیدوار نے حاصل نہیں کئے اسکا مطلب یہ ہے کہ تقریباً نصف امریکی ووٹروں نے ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ‘گزشتہ چار سالوں میں صدر ٹرمپ کے درجنوں سکینڈل سامنے آئے‘ انکا مواخذہ ہوا‘ وائٹ ہاﺅس ایک Revolving Door بنا رہا جہاں ہر روز اعلیٰ عہدیدار ہائر اور فائر ہوتے رہے‘ کورونا وائرس نے دولاکھ تینتیس ہزار امریکنوں کو ہلاک کیا اور صدر ٹرمپ کے اپنے مصاحبین نے انکے خلاف کتابیں لکھ کر انکی تضحیک کی مگر انکے ووٹر انکے ساتھ کھڑے رہے اسکی وجہ یہی تھی کہ انکے حمایتی آج بھی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے چار سال پہلے جو وعدے کئے تھے انہیں پوراکیا گیا ہے ایفائے عہد کا یہ بندھن ایسا ہے جو ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا صدر ٹرمپ اپنے رفقا ءسے کہہ چکے ہیں کہ انہیں اگر وائٹ ہاﺅس چھوڑنا پڑ گیا تو وہ 2024 ءمیں دوبارہ صدارتی امیدوار کی صورت میں سامنے آئیں گے ‘ظاہر ہے 88 ملین حمایتیوں کو وہ کسی بھی صورت چھوڑنا نہیں چاہیں گے جب تک ری پبلکن پارٹی کا کوئی قد آور لیڈر انہیں چیلنج نہیں کرتا وہ اپنی جماعت کے لیڈر رہیں گے کہا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاﺅس سے رخصتی کے بعدری پبلکن پارٹی کے لیڈر فلوریڈا میں انکی قیام گاہ Mar-a Lago میں ان سے ملاقات کیلئے وقت حاصل کرنےکی تگ و دو کرتے نظر آئیں گے اس الیکشن کے ایگزٹ پولز کے مطابق اکتالیس فیصد ووٹروں نے کہا ہے کہ انکی مالی حالت پہلے سے بہت بہتر ہے کورونا وائرس سے پہلے امریکی معیشت قابل رشک تھی اگر یہ وبا نہ آتی تو اکانومی نے مزید ترقی کرنا تھی اس صورت میں جو بائیڈن کیلئے کامیابی حاصل کرنا نہایت مشکل ہوتاایک حیران کن بات یہ بھی ہے کہ سرویز کے مطابق اڑتالیس فیصد ووٹروں نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کو کامیابی سے ہینڈل کیا ہے بعض تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 2024 ءکے صدارتی انتخابات میں یا تو صدر ٹرمپ فتحیاب ہوںگے یا ان سے ملتا جلتا کوئی امیدوار صدر امریکہ بنے گاانکے مخالفین یہ کہہ رہے ہیں کہ انکے وائٹ ہاﺅس چھوڑنے کے بعد ری پبلکن پارٹی ان سے فاصلے بڑھا لے گی اور انہیں اپنی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کا موقع نہ دیگی بعض لوگ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ امریکی سیاست میں دوسرا ڈونلڈ ٹرمپ کبھی بھی نہیں آئیگاسب نقال ناکام ہوں گے مگر یہ بھی طے ہے کہ جلد یا بدیر ڈونلڈ ٹرمپ کا سایہ امریکہ کے سیاسی منظر نامے سے ہٹ جائیگا مگر صدر ٹرمپ نے قومی وحدت کوجو زخم لگائے ہیں انہیں مندمل ہونے میں کافی عرصہ لگے گا اس کے باوجود انکے سینکڑوں ملین حمایتی انکی پرستش کرتے ہیں اور انکے اتنے ہی مخالفین ان سے سخت نفرت کرتے ہیں اس خرابے میں درمیانی راستہ کوئی بھی نہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی معاشرے کو اپنی ہیجان خیز سیاست سے جس بری طرح تقسیم کیا ہے اسکے اثرات تا دیر باقی رہیں گے۔