امریکی جمہوریت میں دراڑیں

صدر ٹرمپ کیلئے جمعے کا دن بہت سی بری خبریں لیکر آیاانکی ری پبلکن پارٹی کے دوستوں نے دو سخت مقابلے کی ریاستوں میں انکے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا ‘صدر امریکہ کی انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دینے کی کوششوں میں جارجیا اور مشی گن کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ری پبلکن پارٹی کی عدالت میں دائر کردہ درخواست کے بعد جارجیا میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہو رہی تھی جمعے کے دن دوپہر سے پہلے جارجیا کے سیکرٹری آف سٹیٹ Brad Raffensperger جو کہ ری پبلکن ہیں نے ایک پریس کانفرنس میں جو بائیڈن کی فتح کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ نائب صدر 12670 ووٹوں کی اکثریت سے جارجیا کا الیکشن جیت گئے ہیںانکے بیان کے مطابق چند دنوں میں پانچ ملین ووٹوں کی ہاتھوں کے ذریعے گنتی ایک بہت مشکل کام تھا مگر اسے بر وقت مکمل کر لیا گیا ہے یہ مشکل کام اسلئے ضروری تھا کہ جارجیا کے آئین کے مطابق تین نومبر کے الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کی Certification یا تصدیق بیس نومبر شام پانچ بجے تک ہونا ضروری تھی یہ ڈیڈ لائن اگر مس ہو جاتی تو پھر یہ کام ریاستی عہدیداروں کے ہاتھ سے نکل کر قانون ساز ادارے کے منتخب اراکین کے ہاتھوں میں چلا جاتا جارجیا کی ریاستی اسمبلی میں کیونکہ ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہے اسلئے وہ اپنی مرضی کے نمائندوں کی فہرست بنا کے الیکٹورل کالج میں بھجوا دیتے یوں مشی گن کے سولہ الیکٹورل ووٹ جو بائیڈن کو ملنے کی بجائے ڈونلڈ ٹرمپ کو مل جاتے کئی ریاستوں کے قوانین کے مطابق اگر ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں تاخیر ہو جائے یا بڑے پیمانے پر دھاندلی کی شکایات ہوں تو ریاستی اسمبلی کے اراکین انتخابی نتائج کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی کے نمائندے الیکٹورل کالج میں بھجوا سکتے ہیں صدر ٹرمپ اور ری پبلکن پارٹی کے کئی لیڈروں کی یہ کوشش تھی کہ سخت مقابلے کی ریاستوں میں Electoral Slateبنانے کا کام ریاستی اسمبلیوں کے پاس چلا جائے تا کہ وہ اپنی مرضی کے نمائندے الیکٹورل کالج میں بھجوا سکیں مگر سب سے پہلے جارجیا نے صدر ٹرمپ کی حکمت عملی میں شگاف ڈالا اسکے بعد ان کیلئے اسی دن دوسری بری خبر مشی گن سے آئی یہ ریاست صدر امریکہ کے وضع کردہ Victory Path یا فتح کے راستے کا اہم سنگ میل تھی پہلے انکے دوستوں اور وفا داروں نے ریاستی دارالخلافے کے سرکاری عہدیداروں پر دوستانہ انداز میں اثر انداز ہونیکی کوشش کی پھر دھونس اور دھاندلی کا استعمال بھی ہوا جب کام نہ بنا تو صدر ٹرمپ نے ریاستی اسمبلی کے چند ری پبلکن اراکین کو وائٹ ہاﺅس میں مدعو کیا امریکی تاریخ میں کیونکہ اتنی کھلی دیدہ درہنی کی کوئی مثال نہیں ملتی اسلئے اس قانون شکنی کے خلاف نہ صرف میڈیا پر بلکہ سڑکوں پر بھی احتجاج ہوا وائٹ ہاﺅس کے یہ مہمان اگر صدر ٹرمپ کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتے تو ایک نیا بحران کھڑا ہو جاتا مگر انہوں نے ہوا کے رخ کو دیکھتے ہوے صدر ٹرمپ سے میٹنگ کے بعد بیان دیا کہ We will not intervene in our state's certification process یعنی ہم اپنی ریاست کے تصدیقی عمل میں مداخلت نہیں کریں گے مشی گن کے انتخابی قوانین کے وکلا نے صدر ٹرمپ کی انتخابی عمل میں مداخلت کو امریکی جمہوریت کو تہہ و بالا کرنے کی سازش قرار دیاصدر ٹرمپ نے کئی ریاستوں کی عدالتوں میں الیکشن میں دھاندلی کے بے بنیاد الزامات لگا کر مقدمات دائر کئے ہوئے ہیں مگر ان میں سے بیشتر کو مسترد کر دیا گیا ہے یہ مقدمات اتنے معمولی اور کمزور ہیں کہ میڈیا میں انکے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ They have been laughed out of courts یعنی عدالتوں میں انکا مذاق اڑا کر انہیں خارج کر دیا گیا ہے مشی گن کے سٹیٹ کنویسنگ بورڈ نے 23 نومبر کو الیکٹورل کالج کی سولہ نشستوں کے نتائج کی تصدیق کرنا ہے اس ریاست میں جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ سے تقریباّّ ڈیڑھ لاکھ ووٹ زیادہ لئے ہیں ۔
وسکانسن صدر ٹرمپ کی منصوبہ بندی کے مطابق انکی فتح کے راستے کا اہم قلعہ ہے یہاں ری پبلکن اور ڈیموکریٹس میں اتنا گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے کہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کو براہ راست ٹیلیویژن پر دکھایا گیا اس گنتی کے بعد ری پبلکن پارٹی نے چند ایسی کاﺅنٹیزمیں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے جہاں یہ عمل پہلے نہیں ہوا یہ ریاست بھی جو بائیڈن نے جیتی ہے اور اسکی الیکٹورل کالج کے دس ووٹوں کی تصدیق یکم دسمبر تک متوقع ہے اگر تمام ریاستیں مقدمات اور تنا زعات ختم کر کے آٹھ دسمبر تک نتائج کی تصدیق کر دیتی ہیں تو اسکے بعد عدالتی چارہ جوئی نہ ہو سکے گی اسکا یہ مطلب ہو گا کہ وہ ریاستیں جہاں جو بائیڈن جیتے ہیں ان ہی کے منتخب نمائندے الیکٹورل کالج میں بھیجیں گی یوں انہیں 306 اور ڈونلڈ ٹرمپ کو 232 ایکٹورل ووٹ ملیں گے یہ ہر ریاست کے گورنر کی ذمہ داری ہے کہ وہ آٹھ دسمبر تک اپنی ریاست کے تصدیق شدہ انتخابی نتائج کو مرتب کرے اور الیکٹورل کالج کے نمائندوں کے ناموں کی فہرست کیساتھ انہیں کانگرس کو بھجوا دے امریکہ کی پچاس ریاستوں کے الیکٹورل اراکین چودہ دسمبر کو واشنگٹن میں اپنے اپنے صدارتی امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالیں گے یہ ایک آئینی عمل ہو گا جسکے ذریعے اگلے چار سال کیلئے صدر امریکہ کو منتخب کیا جائیگا کانگرس چھ جنوری کو یہ ووٹ گن کر انکی تصدیق کریگی یہ صدر امریکہ کے انتخاب کا آخری مرحلہ ہو گا اسکے بعد بیس جنوری کو چیف جسٹس جان رابرٹس نئے صدر سے حلف لیں گے۔چند روز پہلے تک صدر ٹرمپ کے پاس واحد قانونی راستہ یہی تھا کہ کم از کم تین چار ایسی ریاستوں میں سرٹیفیکیشن کا عمل مﺅخر ہو جائے جہاں ریاستی اسمبلی میں ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہو اسطرح سے اسمبلی کے ممبر عوام کے فیصلے کو مسترد کر کے اپنی مرضی کی الیکٹورل فہرست بنا سکتے تھے مگر اب مشی گن‘ جارجیا اور وسکانسن کے علاوہ ایریزونا اور پنسلوینیا میں بھی اس سازشی سکیم کے کامیاب ہونے کے امکانات تقریباّّ ختم ہو گئے ہیں اسکے بعد بھی اگر صدر ٹرمپ نے انتخابی نتائج تسلیم نہ کئے تو پھر بیس جنوری کو وائٹ ہاﺅس سے انکی رسوا کن بیدخلی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا مگر ماہرین کے مطابق ری پبلکن پارٹی کے با اثر لوگ معاملات کو اس حد تک جانے نہ دیں گے ہر دو صورتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی جمہوریت میں اتنی دراڑیں ڈال دی ہیں کہ اب جو بائیڈن جمہوریت پر درس و تدریس نہ کر سکیں گے ایک وہ وقت بھی تھا جب جارج ڈبلیو بش نے عراق پر حملے کی ایک وجہ سے صدام حسین کی آمریت سے نجات دلا کر یہاں جمہوریت نافذ کرنا بتائی تھی۔