Transition ایک کثیرالمعنی لفظ ہے اسکا ایک مطلب عبوری دور ہے آکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری میں اسکے کئی معنی بتائے گئے ہیں ان میں سے ایک میدانوں سے پہاڑوں کی طرف کوچ کرنا ہے اس سے آگے موسیقی‘ تعمیرات اور طبیعات میں اسکے معانی خاصے مختلف ہیںآجکل صدر ٹرمپ کے بارے میںکوئی خبر بھی اس لفظ کے بغیر مکمل نہیںہوتی امریکی سیاست میں تھوڑی سی دلچسپی رکھنے والے بھی جاننا چاہتے ہیں کہ صدر امریکہ وائٹ ہاﺅس سے کب اور کیسے رخصت ہوں گے اتوار کی شام تک تو وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم تھے اس روز الیکشن کو ختم ہوئے انیس دن ہو چکے تھے اس عبوری دور میں آئین کے مطابق نو منتخب صدر کو مالی وسائل مہیا کرنے کے علاوہ قومی سلامتی ‘ خارجہ پالیسی اور دیگر اہم امور پرروزانہ انٹیلی جنس بریفنگ دینا بھی شامل ہے جو بائیڈن کے مشاہیر بیانات دے رہے تھے کہ اگر نئے صدر کو کورونا وائرس کے بارے میں تازہ ترین معلومات نہ دی گئیں تو کئی ہزار انسانی جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے میڈیا بھی عبوری دور کے آغاز کیلئے دباﺅ بڑھا رہا تھا مگر صدر امریکہ مسلسل کہے جا رہے تھے کہ الیکشن ان سے چرا لیا گیا ہے اسلئے وہ ٹرانزیشن شروع نہیں کر سکتے جن ریاستوں میں ریپبلیکن پارٹی نے انتخابی نتائج کو عدالتوں میں چیلنج کیا تھا وہاں سے مقدمات ثبوت نہ ہونیکی وجہ سے خارج کر دئے گئے تھے اسکے بعد ریاستی اسمبلیوں میں اثر رسوخ اور دباﺅ استعمال کر کے الیکٹورل کالج کی فہرست میں ردو بدل کیا جا سکتا تھایہ ہتھکنڈے بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے مشی گن اور پنسیلوینیا نے پیر کی صبح تک فہرستوں کی تصدیق کرنا تھی ان دونوں ریاستوں نے اتوار کے دن ووٹ کی حرمت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عوامی رائے کے عین مطابق جو بائیڈن کی فتح کی تصدیق کر دی صدر ٹرمپ اسے بھی نظر انداز کرتے ہوئے رخنہ اندازی کر سکتے تھے مگر عوامی دباﺅ اتنا بڑھ گیا تھا کہ ریپبلیکن پارٹی کے چند سینئر ممبروں نے بہ آواز بلند ٹرانزیشن شروع کرنیکا مطالبہ کر دیااس پارٹی کی ایک بڑی اکثریت کیونکہ صدر ٹرمپ کے احکامات سے رو گردانی کا خطرہ مول لینے کیلئے تیار نہیں اسلئے بزرگوں کے مشورے بھی کار آمد ثابت نہیں ہو رہے تھے دنیا بھر کے حکمران بھی جو بائیڈن کو مبارکباد دے چکے تھے مگر صدر ٹرمپ ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے وہ کلیم عاجز کے اس شعر کے عین مطابق اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے۔
کوئے قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے ہے
جو گذر جائے ‘ گذر جانے کو جی چاہے ہے
مرزا غالب نے بھی صبر طلب عاشقی‘ بے تاب تمنا اور خون جگر ہونیکی بات کی ہے تو یوں سمجھئے کہ پھرخون جگر ہونیکا مرحلہ آ پہنچا پیر کے دن ایک سو ساٹھ سے زیادہ امریکی کارپوریشنز کے چیف ایگزیکٹیوز نے صدر امریکہ کو ایک خط بھیجا جس میں ان سے ٹرانزیشن شروع کرنیکا مطالبہ کیا گیا امریکہ کے بارے میں دو باتیں بڑی مشہور ہیں ایک یہ کہ یہNation of Laws ہے اور دوسری یہ کہ یہ کاروباری لوگوں کا ملک ہے دونوں باتیں اسلئے درست ہیں کہ گھر سے نکلتے ہی قوانین تعاقب شروع کر دیتے ہیں زیادہ درست بات یہ ہے کہ گھر کے اندر بھی قانون کا خیال رکھنا پڑتا ہے بیوی پاکستانی ہو یا امریکن گھر کے خرچے کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت کچھ برداشت کر لیتی ہے مگر بچے جلال میں آکر گھر میں قانون کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کر سکتے ہیںکاروبار والی بات بھی اسلئے درست ہے کہ دنیا بھر سے لوگ ڈالروں کے انبار اٹھا کر یہاں کاروبار کیلئے آتے ہیں انہیں سرکار نے ہر قسم کا تحفظ اور سہولت دے رکھاہے تا کہ وہ کہیں ناراض ہوکر کسی دوسری شاخ پر آشیانہ نہ بنا لیںامریکہ اگر کاروباری لوگوں کا ملک نہ ہوتا تو صدر ٹرمپ ایک سو ساٹھ C.E.O's کی بات پر بھی کان نہ دھرتے ان اہل جاہ و حشمت کا خط اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا ان خواتین و حضرات میں کئی صدر امریکہ کے دوست اور ہم خیال بھی شامل تھے وہ ملک کو انتشار کا شکار ہونے نہیں دے سکتے تھے یہ صورتحال انکے کاروبار کیلئے نہایت نقصان دہ تھی اس خط میں انتقال اقتدار کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر انکی بات نہ مانی گئی تو وہ جارجیا میں سینٹ کی دو سیٹوں پر ہونیوالے الیکشن کیلئے ریپبلیکن پارٹی کو چندہ نہ دیں گے ا ن دو سیٹوں پر ہار جیت کے بعد یہ فیصلہ ہو گا کہ سینٹ میں کس کی اکثریت ہے اسوقت تک ریپبلیکن پچاس اور ڈیموکریٹس اڑتالیس سیٹیںحاصل کر چکے ہیںاس خط میں لکھا ہے کہ ”ہر گذرتے دن کیساتھ ہماری جمہوریت ہمارے اپنے شہریوں اور دنیا بھر کی نگاہوں میں بھی کمزور اوربے توقیر ہو رہی ہے“ اسکے علاوہ سو سے زیادہ قومی سلامتی کے مشیروںنے ریپبلیکن پارٹی کے با اثر ممبروں سے مطالبہ کیا کہ انتقال اقتدار کا مرحلہ شروع کر دیا جانا چاہئے پیر کے دن ہی ملک کی ایک بڑی کاروباری کمپنی جنرل موٹرز نے اعلان کیا کہ وہ کیلیفورنیا میں صدر ٹرمپ کی فیول اکانومی کے بارے میں وضع کردہ نئے قوانین کو تسلیم نہیں کریگی اسکے بعد جو ہونا تھا وہ ہوگیاجو فیصلہ چیف جسٹس نے کرنا تھا وہ ایک چھوٹے محکمے کے سربراہ نے ایک اعلان کے ذریعے کر دیا پیر کی شام جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن کی سربراہ Emily Murphy نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے عبوری دور کا آغاز کر کے جو بائیڈن کو تمام آئینی سہولتیں دینے کا فیصلہ کر لیا ہے صدر ٹرمپ کو گاڑی چھوٹنے کا فوراً احساس ہو گیا انہوں نے ٹویٹ کر کے اطلاع دی کہ ” ملک کے بہترین مفاد میں انہوں نے ٹرانزیشن شروع کرنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں“ اسکے ساتھ میں نہ مانوں کی رٹ لگاتے ہوئے صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا Our case strongly continues, we will keep up the good fight ایک ضدی شخص کی انا کی جنگ آخر کب تک جاری رہ سکتی ہے اب یہ طے ہو چکا ہے کہ ڈونلد ٹرمپ بیس جنوری کو میدانوں سے ساحلوں کا سفر شروع کر دیں گے انکی نئی قیام گاہ فلوریڈا کے ساحل پر واقع ہے اسمیں گالف کلب کے علاوہ ایک ریسٹورنٹ اور منشن بھی ہے اسے Mar-a-Logo کہا جاتا ہے اگلے سال سٹیزن ٹرمپ کے ٹویٹ اس جگہ سے جاری ہو کر نفرتوں کے کاروبار کو جاری رکھیں گے ظہیر کاشمیری کا شعر ہے۔
میں ہوں وحشت میں گم ‘ میں تیری دنیا میں نہیں رہتا
بگولہ رقص میں رہتا ہے صحرا میں نہیں رہتا