مشرق وسطیٰ‘نئے اتحاد

مئی2018 میںصدر ٹرمپ نے ایران اور چھ ممالک کے درمیان ہونیوالے نیوکلئیئر معاہدے کو یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیا تھا اسکے بعد مشرق وسطیٰ میں پے در پے ایسے واقعات رو نما ہوئے جس نے اس خطے کے سیاسی منظر نامے کو مکمل طور پر تبدیل کر دیاہے یہ تبدیلی اتنی حیران کن ہے کہ اسنے صدیوں پرانے دشمنوں کو دوست بنا دیا ہے کل تک ایک دوسرے کیساتھ بر سر پیکار رہنے والی طاقتوں نے ایک نیا اتحاد بنا لیا ہے اس اتحاد ثلاثہ کی غرض و غایت پر کچھ کہنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کون سا واقعہ تھا جو مڈل ایسٹ میں اس Paradigm Shift یعنی کایا پلٹ کا باعث بنایہ واقعہ چودہ ستمبر2019 کی صبح اسوقت پیش آیا جب ایرانی ایئر فورس نے بیس ڈرونز اور کروز میزائل سعودی عرب کی ا بقیق میں واقع آئل فیلڈ پر داغے ان میزائل کو Precision guided Missiles یعنی کامل درستی سے ٹھیک نشانے پر لگنے والے میزائل کہا جاتا ہے ابقیق سعودی عرب کا معدنی تیل پیدا کرنیوالا اہم ترین علاقہ ہے اس حملے میں ایران نے نہ صرف وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی بلکہ اسنے اپنے دشمنوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتا ہے اس یلغار میں ایرانی ڈرونز اور کروز میزائل اتنی کم بلندی اور اتنے خفیہ طریقے سے حملہ آور ہوئے کہ سعودی اور امریکن دونوں راڈار سسٹم انکی اڑان اور لینڈنگ کو نہ بھانپ سکے یہ طریقہ خفیہ اسلئے تھا کہ اسمیںڈرونز اور کروز میزائلوں نے راڈار کو طرح دیکر اپنے اہداف حاصل کئے اسرائیل کے دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حملے نے انکی آنکھیں کھول دیں اور انہیں پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ ایران کسی ایٹم بم کے بغیر بھی اپنے دشمن ممالک کے حساس مقامات پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتا ہے ریاض کے حکمرانوں کو اس حملے سے زیادہ جس واقعے نے پریشان کیا وہ صدر ٹرمپ کی خاموشی تھی سعودی عرب کو توقع تھی کہ امریکہ ایران کو دندان شکن جواب دیگاسعودی حکمرانوں کے خیال میں ایران نے اس بلا اشتعال حملے میں پہلی مرتبہ اپنی بھرپور فضائی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا اسکا جواب صرف امریکہ دے سکتا تھا مگر وہ چپ رہااس پرسعودی حکمرانوں نے جب احتجاج کیا تو تین ہفتے بعد صدر ٹرمپ نے تین ہزار فوجی اور کچھ اینٹی میزائل بیٹریاں بھجوا دیں مگر صدر امریکہ نے اس سازو سامان کیساتھ ایک پیغام بھی بھیجا جو زیادہ اہم تھا گیارہ اکتوبر2019 کے اس پیغام میں صدر ٹرمپ نے کہا ” ہم اپنے فوجی اور ہتھیار سعودی عرب کی مدد کیلئے بھیج رہے ہیں لیکن کیا تم اس کیلئے تیار ہو میرے کہنے پر سعودی عرب نے اقرار کیا ہے کہ وہ ان اخراجات کی پوری قیمت ادا کریں گے That's a first “ یہ ایک بہت بلند آہنگ پیغام تھا اسکے بین السطور امریکہ یہ کہہ رہا تھا کہ وہ تیل کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے اسے مشرق وسطیٰ کے تیل کی کوئی ضرورت نہیں اگر اس خطے کے ممالک کو امریکی اسلحے کی ضرورت ہے تو امریکہ ضرور اسلحہ مہیا کریگا مگر یہ کام اب پہلے دام پھر طعام کی بنیاد پر ہو گا ۔اس واضع پیغام کے بعد وہ اتحاد ثلاثہ وجود میں آیا جسے تسلیم کرنے سے بعض مسلم ممالک انکاری ہیںاور بعض اسے حیرانی سے دیکھ رہے ہیںاسرائیل نے ایک طرف متحدہ عرب امارات اوربحرین سے کھلم کھلا اوردوسری طرف سعودی عرب سے خفیہ طور پر دوستانہ تعلقات استوار کر لئے ہیںوہ خبر جسے مغربی میڈیا نے خوب اچھالا اور چند مسلم ممالک نے رواداری میں غائب کر دیا وہ دو ہفتے پہلے سعودی عرب کے نئے شہر نیوم میں شہزادہ محمد بن سلیمان اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجا من نیتن یاہو کی خفیہ ملاقات کے بارے میں تھی اس ملاقات کے دو روز بعدستائیس نومبر کوایران کے نیوکلئیر سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران کے قریب ابسارد کے مقام پر ایک پراسرار ریموٹ کنٹرول حملے میں ہلاک کیا گیا مغربی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اس حملے کے شواہد اسرائیل کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ان تمام واقعات کو اگر یکجا کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے عرب ریاستوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ امریکہ پرانحصار کرنیکی بجائے اپنے خطے میں ایسا اتحادی ڈھونڈیں جو ایران کے خلاف انکا دفاع کر سکے عرب ممالک کو اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر آمادہ کرنیکا امریکہ کو یہ فائدہ ہے کہ وہ اب اپنے فوجی بھجوائے بغیر ہی ایران کا راستہ روک سکتا ہے عرب ممالک اور اسرائیل کی اس قربت کو اسلئے اتحاد ثلاثہ کہا جا رہا ہے کہ اسے امریکہ کی اشیر باد حاصل ہے اس اتحاد کی اسرائیل کو بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ عرب ممالک کو اسرائیلی دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے ایٹم بم کا راستہ روکا جا سکتا ہے مگر اسکے ڈرونز اور کروز میزائل جو تباہی پھیلا سکتے ہیں اسکی مثال ابقیق کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اسلئے نو منتخب صدر بائیڈن کو ایران کیساتھ کسی بھی نئے جوہری معاہدے میں اب نئے فضائی ہتھیاروں کا احا طہ بھی کرنا ہو گا ان ماہرین کی رائے میں ایران نے جو Precision Guided Missiles سعودی عرب کے خلاف استعمال کئے ہیں وہ انہیں یمن‘ عراق‘ شام ‘لبنان اور غازہ میں اپنے پراکسی گروپوں کو بھی دے سکتا ہے ان ہتھیاروں کے اسرائیل کیلئے خطرناک ہونے کے ثبوت میں لبنان میں 2006 میںہونیوالی اس جنگ کی مثال دی جا رہی ہے جسمیں حزب اللہ نے اسرائیل میں زمین سے زمین پر مار کرنے والے محدود رینج والے بیس راکٹ پھینکے تھے ان میںسے کوئی ایک بھی صحیح نشانے پر نہیں لگا تھااب اگر حزب اللہ بیس ایرانی میزائل اسرائیل کے حساس مقامات پر پھینکتا ہے تو ان میں سے ہر ایک صحیح نشانے پر لگے گا ان مقامات میں نیوکلئیر پلانٹ‘ ایئر پورٹ‘ بندر گاہیں‘ پاور پلانٹس‘ ہائی ٹیک فیکٹریاں اور ملٹری تنصیبات شامل ہیںاسرائیل کو خدشہ ہے کہ ایران یہ ڈرونز اور کروز میزائیل اپنے پراکسی گروپوں کو دیکراسکے گرد ایک حصار بنانا چاہتا ہے سعودی عرب کے ایئر پورٹس پر یمن سے کئی حملے کئے گئے ہیںان حالات میں آجکل اسرائیل اور خلیجی ممالک کو یہ فکر لاحق ہے کہ اگر جو بائیڈن نے پھر ایران کیساتھ2015 والے معاہدے کی روشنی میں کوئی نیا معاہدہ کر لیا اور ایرانی میزائلوں کے مسئلے کو نظر انداز کر دیا تو مشرق وسطیٰ ایک نئی جنگ کے دہانے پر آکھڑا ہو گا نو منتخب امریکی صدر نے ایران کے ساتھ ایک نئے معاہدے کا اعلان اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی کردیا تھا اب دیکھنا یہ ہے کہ بائیڈن کا امریکہ اتحاد ثلاثہ کا حصہ بنتا ہے یا وہ مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان توازن قائم کرنیکی کوشش کرتا ہے۔