صدر ٹرمپ کے ہزاروں پرستاروں نے بدھ کے دن امریکی دارلخلافے پر دھاوا بول کر اپنے محبوب لیڈر کی شکست کو فتح میں بدلنے کی ایک خطرناک اور پر تشدد کوشش کی ‘ ان میں سے بیسیوں افراد کیپیٹل ہل کی عمارت کا دروازہ توڑ کر اس ایوان میں داخل ہو گئے جہاں چند لمحے پہلے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی گنتی ہو رہی تھی یہ وہ جگہ تھی جہاں سے اس روز نومنتخب صدر جوزف بائیڈن کی صدارتی فتح کا اعلان ہونا تھا اس روز اس جگہ پر پورے امریکہ کی نگاہیں لگی ہوئیں تھیں لیکن اس انوکھے اور خوفناک حملے کے بعد یہ جگہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی اس روز امریکہ‘ یورپ اور دنیا بھر کے لوگوں نے ٹیلیویژن سکرین پر ایسے مناظر دیکھے جوکبھی پسماندہ ممالک کے دارلخلافوں میں دیکھنے کو ملتے تھے اس روز ایک دنیا نے دیکھا کہ صدر امریکہ کا بھیجا ہوا بے قابو ہجوم کیپیٹل ہل میں داخل ہوگیا اس عمارت کے ایک ہال میں اسوقت دونوں ایوانوں کے نمائندوں کا مشترکہ اجلاس ہو رہا تھا اس کی راہداری میں ایک عورت پولیس کی گولی لگنے سے ہلاک ہو گئی اس روز درجنوں پولیس افسر زخمی ہوے انہیں صدر ٹرمپ کے حامیوں نے بیس بال کے بیٹس مار کے زخمی کیا یہ ہنگامہ آرائی دوپہر ایک بجے شروع ہوئی اسوقت ہزاروں لوگ کیپیٹل ہل کی عمارت کی طرف بڑھتے ہوے دیکھے گئے ان میں سے بعض میگا فون کے ذریعے لوگوں کو آگے بڑھنے کا کہہ رہے تھے اس لمحے ٹیلیویژن سکرین پر یہ آوازیں گونج رہی تھیں This is our house. Move forward. پولیس کیپیٹل ہل کی سیڑھیوں پر امڈنے والے ہجوم کے سامنے بے بس تھی انکی تعدادڈیڑھ سو کے لگ بھگ تھی جبکہ ہجوم ہزاروںکی تعداد میں تھا دوبجے کے قریب Make America Great Again کے جھنڈے اٹھائے ہوے بلوائی کیپیٹل ہل کی عمارت کے مغربی دروازے کو توڑ کر اندر داخل ہو گئے طویل راہداریوں میں آویزاں تصویروں کو توڑنے اور قیمتی لکڑی کے پینلز کو مسمار کرنے کے بعد یہ لوگ دفتروں کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہو گئے اس روز سپیکر آف دی ہاﺅس نینسی پلوسی کے دفتر کو تہہ و بالا کر دیا گیا اسکی دیواروں پر لگے ہوے قیمتی فریم اکھاڑ دئے گئے اسوقت مشترکہ اجلاس میں ٹرمپ کے حمایتی کانگرس مین باری باری اپنی تقریروں میںبغیر کوئی ثبوت دئے الیکشن فراڈ کی دہائی دے رہے تھے انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے پھر پولیس ہال میں داخل ہوئی ایک پولیس افسر نے روسٹرم پر لگے مائیکرو فون کے ذریعے اعلان کیا کہ ہال میں موجود تمام افراد کو بیسمنٹ میں جانا ہو گا اس نے یہ بھی کہا کہ ہر شخص کو گیس ماسک دئے جائیں گے کیونکہ بلڈنگ کے اندر اور باہر ہر طرف آنسو گیس پھیلی ہوئی ہے اس دوران ہجوم ہال کے نصف درجن دروازوں کو توڑنے کی کوشش کر رہا تھا میگا فون سے آواز آ رہی تھی Whose House ہجوم جواب دے رہا تھا Our House عمارت کے باہربھی پولیس ہجوم کیساتھ الجھی ہوئی تھی آنسو گیس چل رہی تھی پولیس رائفلوں کا رخ ہجوم کی طرف کرکے انہیں آگے بڑھنے سے روک رہی تھی مگر اسکی بے بسی صاف نظر آرہی تھی بلوائی ہال میں ہونیوالی ووٹنگ رکوانا چاہتے تھے یہ وہ آخری مرحلہ تھا جسکے بعد جو بائیڈن کا راستہ روکا نہ جا سکتا تھا ہجوم اسوقت اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا سینیٹر ووٹنگ مکمل نہ کر سکے اور انہیں نیشنل گارڈ نے تہہ خانے سے ملحق سرنگ میں سے گذار کر آس پاس کی عمارتوں میں پہنچا دیا وہ دن ڈونلڈ ٹرمپ کا دن تھا مگر اس روز سورج کے غروب ہوتے ہی بازی الٹ گئی پورے چار سال تک صدرٹرمپ کے کندھے سے کندھا جوڑ کر اسکا ہر حکم بجا لانیوالے ریپبلیکن پارٹی کے سینیٹ میں اکثریتی لیڈر مچ میکانل نے دارلخلافے میں شام چھہ بجے کرفیو لگنے کے بعد سینٹ کا اجلاس دوبارہ طلب کر لیا اس سے ایک روز پہلےMitch McConnell سینٹ فلور پر یہ اعلان کرکے صدر ٹرمپ سے اپنے راستے جدا کر چکے تھے The voters, the courts and the states have all spoken. If we overrule them all, it would damage our republic forever امید کے اس چراغ کے گل ہونے کے بعد صدر ٹرمپ کی نگاہیںنائب صدر مائیک پینس پر لگی ہوئی تھیں کانگرس کا وہ مشترکہ اجلاس جسمیں الیکٹورل کالج کے ووٹ گنے جاتے ہیںکی صدارت نائب صدر کرتے ہیں اس اجلاس میںانہوں نے صدارتی الیکشن کے فاتح کا اعلان کرنا ہوتا ہے امریکہ کی سوا دو سو سالہ دستوری تاریخ میں کبھی ایسا نہیںہوا کہ نائب صدر نے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی سرکاری گنتی کے برعکس اپنی مرضی سے شکست خوردہ صدارتی امیدوار کی فتح کا اعلان کیا ہو مگر صدر ٹرمپ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق کئی دنوں سے مائیک پینس کو مجبور کر رہے تھے کہ وہ جو بائیڈن کی جگہ انکی فتح کا اعلان کریں نائب صدر کئی دنوں تک صدر ٹرمپ کو یہ کہہ کر ٹالتے رہے کہ انکے مشاہیر آئین کا مطالعہ کر رہے ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ کوئی ایسا راستہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں گے جسکی رو سے وہ الیکشن کے نتائج کو کالعدم قرار دے دیں گے مگر انہوں نے مچ مکانل کی طرح چار سال تک صدر ٹرمپ کی ہاں میں ہاں ملانے کے بعد چھ جنوری کی صبح ایک جرات مندانہ بیان دے کر صدر ٹرمپ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا انہوں نے کہا ” مجھے گمان نہیں ہے کہ ہمارے بانیان قوم نائب صدر کو یہ اختیار دینا چاہتے تھے کہ وہ کانگرس کے مشترکہ اجلاس میں اپنی مرضی سے چند ریاستوں کے الیکٹورل کالج کے ووٹ تبدیل کردے ‘ امریکہ کی تاریخ میں کسی بھی نائب صدر نے اس اختیار کا ناجائز استعمال نہیں کیا “ یہ بیان اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا صدر ٹرمپ کو اپنی امیدوں کا ٹائی ٹینک ڈوبتا نظر آنے لگا وہ ہجوم پہلے ہی تیار چکے تھے اب کیپیٹل ہل پر قبضے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہ بچا تھاچھ جنوری کے دن وہ ٹویٹر پر ڈھکے چھپے الفاظ میں ہجوم کی حوصلہ افزائی کرتے رہے پھر شام سے پہلے وہ کھل کر سامنے آگئے اس روز کے آخری ٹویٹ میں انہوں نے لکھا ” جب کسی الیکشن میں ایک امیدوار کی لینڈ سلائیڈ فتح کو شکست میں بدلا جاتا ہے تو پھر اس قسم کے واقعات کا رونما ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے اس الیکشن میں محب الوطنوں کے ساتھ جو بد سلوکی کی گئی وہ سب کے سامنے ہے اور یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے“ اس بیان کے بعد ٹویٹر نے صدر ٹرمپ کے اکاﺅنٹ کو بارہ گھنٹے کیلئے معطل کر دیا اسکے ساتھ ہی ڈیموکریٹس کی ایک بڑی تعداد اور چند ریپبلیکن سینیٹروں نے بھی صدر ٹرمپ پر غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر دیا اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلے بارہ دنوں میں اس قطرے پر گہر ہونے سے پہلے کیا گذرتی ہے۔