سیاست اور موقع پرستی۔۔۔

امریکی سینٹ میں اکثریتی جماعت کا لیڈرصدر کے بعد دوسرا طاقتور ترین شخص ہوتا ہے اسکی مرضی کے بغیر ایوان نمائندگان کی بھیجی ہوئی کوئی بھی قرارداد منظور ہو کر صدر کے دستخط کیلئے نہیں جا سکتی بعض اوقات صدر اگر سینٹ سے کوئی قرارداد منظور کروانا چاہے اور چئیرمین سینٹ اسکی منظوری نہ دے تو صدر بے بس ہو جاتا ہے گذشتہ مہینے صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ ہر ٹیکس دینے والے امریکی کو دو ہزار ڈالر کا گزارہ الاﺅنس دینا چاہتے ہیںان کی یہ سخاوت ڈیموکریٹس کی پالیسیوں کے عین مطابق تھی اسلئے ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے فوراّّ یہ قرارداد منظور کروا کے سینٹ بھجوا دی ریپبلیکن پارٹی کے سینٹ میں اکثریتی لیڈر مچ میکانل پہلے ہی چھ سوڈالر فی کس دینے سے انکار کر چکے تھے انہوں نے نئی قرارداد کے بارے میں صرف اتنا کہا کہ انکے پاس اسے منظور کروانے کیلئے ووٹ نہیں ہیں اور یوں یہ معاملہ رفت گذشت ہو گیا پچھلے چار سالوں میں یہ پہلی مرتبہ تھی کہ Mitch McConnell خم ٹھونک کر اپنی پارٹی کے صدر کے خلاف کھڑے ہوئے اور اپنی بات منوا لی دراصل ریپبلیکن پارٹی ہمیشہ سے عام آدمی کو زیادہ مراعات دینے کے حق میں نہیں رہی اسکا زیادہ رحجان اہل زر کو ٹیکس بریک دینے کی طرف رہا ہے اسکا ہمیشہ سے یہ کہنا ہے کہ ہم کاروباری طبقے کوچھوٹ اور آسانیاں دیں گے اور وہ اپنے کاروبار کو ترقی دیکر یہ ثمرات عوام کو منتقل کر دیں گے اور ایسا کسی حد تک ہوتا بھی رہا ہے اسلئے ریپبلیکن پارٹی اس پالیسی کے باوجود اپنے ووٹروں کی حمایت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے مچ میکانل کو اپنی جماعت کی طرف سے صدر ٹرمپ کی اس فیاضی کو مسترد کرنے پر کسی قسم کی مخالفت کی امید نہ تھی اسلئے انہوں نے سوچ سمجھ کر یہ چال چل دی۔ریاست کنٹکی سے تعلق رکھنے والے 78 سالہ سینیٹر میکانل پانچ مرتبہ سینٹر منتخب ہو چکے ہیں ایک طویل عرصے سے وہ ایک با اثر اور طاقتور سینیٹر کے طور پر جانے جاتے ہیں پچھلے چار سال ان کیلئے نہایت کٹھن تھے کیونکہ وہ اور انکی ریپبلیکن پارٹی ڈونلڈ ٹرمپ کی کسی بھی معاملے میں مخا لفت کرنے سے گھبراتی تھی یہ منتخب نمائندے صدر ٹرمپ کی ٹویٹر پاور سے خوفزدہ تھے اور پھر ان میں سے اکثر نے الیکشن بھی لڑنے تھے اور انہیں ٹرمپ کے پرستاروں کے ووٹوں کی سخت ضرورت تھی اسلئے خاموش رہنے ہی میں انکی عافیت تھی یہ تابعداری اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ ریپبلیکن پارٹی صدر ٹرمپ کی ربڑ سٹیمپ بن گئی تھی ان دنوں مچ میکانل کی یہ بے بسی اسلئے بھی قابل فہم تھی کہ انہوں نے خود2020 میں سینٹ کا الیکشن لڑنا تھا اسلئے انکے پاس اپنے باس کی مکمل تابعداری کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہ تھا اس حکمت عملی پر چلتے ہوئے وہ پانچویں مرتبہ سینیٹر منتخب ہو گئے پھر چشم فلک نے دیکھا کہ امریکی سیاست اچانک ایک نئے دور میں داخل ہوگئی تین نومبر کے الیکشن کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا وائٹ ہاﺅس سے رخصت ہونا نوشتہ دیوار بن چکا تھا مگر یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ دوسری مرتبہ مﺅاخذے کی رسوائی کا داغ سجا کر سفید محل سے رخصت ہوں گے چھ جنوری کو کیپیٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کے حملے نے امریکی سیاست کی قلب ماہیت کر دی اسکے شب وروز اب پہلے جیسے نہیں رہے ڈیموکریٹس کے حوصلے خاصے بلند ہیں اور ہر ریپبلیکن لیڈر نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ 74ملین ووٹ لینے والے ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ ہے یا اسکے مخالف ‘ اب تک کئی سرویز کے مطابق نصف سے زیادہ ریپبلیکن لیڈر ٹرمپ کی مخالفت کرنے سے انکار چکے ہیں چھ جنوری کے بعد امریکی عوام اور میڈیا کو جس شخص کے فیصلے کا سب سے زیادہ انتظار تھا وہ مچ میکانل تھا سب سوچ رہے تھے کہ چار سال تک صدر امریکہ کی ہر صحیح اور غلط بات پر مہر تصدیق ثبت کرنیوالا سینیٹر میکانل کیا فیصلہ کریگا اسکا فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ ریپبلیکن پارٹی کے مستقبل پر بھی دور رس اثرات مرتب کر سکتا تھا اسنے چھ جنوری کی شام حملے کے بعد سینٹ کا اجلاس دوبارہ بلا کر یہ اشارہ دے دیا تھا کہ اسکے تیور بدلے ہوئے ہیں اس اجلاس میں الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی گنتی کے بعد جوزف بائیڈن کی فتح کا اعلان ہونا تھا اس مرحلے کے مکمل ہونیکے بعد اگلے روز جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ سینٹ میں مﺅاخذے کی کاروائی کے دوران صدر ٹرمپ کا ساتھ دیں گے یا نہیں تو انکا جواب یہ تھا کہ وہ دلائل سنکر ہی کوئی فیصلہ کریں گے سامنے کی بات یہی ہے کہ چار سال تک ایک برخود غلط صدر کو بھگتنے کے بعد اور کیپیٹل ہل پر اسکے بھیجے ہوے ہجوم کے حملے کے بعد سوچنے کیلئے کیا رہ جاتا ہے مگر وہ ٹرمپ کے حامیوں کیلئے لقمہ تر نہیں بننا چاہتے تھے اسلئے انہوں نے اسوقت درمیانی راستہ اختیار کرنا بہتر سمجھا نظر یہی آرہا ہے کہ وہ ریپبلیکن پارٹی کو ڈونلڈ ٹرمپ کے تسلط سے آزاد کروانے کا فیصلہ کر چکے ہیں اسکی جو قیمت بھی ہو وہ اسے ادا کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں انکا حساب کتاب یہی ہے کہ اگلا صدارتی الیکشن چار سال بعد ہو گا اور انکی اپنی سینٹ کی سیٹ کا الیکشن بھی چھ سال تک نہیں ہونا لہٰذا بہت جلد ہی صدارت سے سبکدوش ہونے والے ایک ضدی اور ہٹ دھرم شخص سے راستے جدا کرنیکا وقت آ گیا ہے اس موقع پر عرفان صدیقی صاحب کی تازہ غزل کا یہ شعر یاد آرہا ہے
کل تک تو قربتیں تھیںتقاضائے عافیت
اب ہر ثواب اجرو جزا فاصلے میں ہے
اسی غزل کا ایک دوسرا شعر بھی اس صورتحال سے لگا کھاتا ہے
باہر بہت گھٹن سہی ‘ یہ تو نہ تھا مگر
دستک کا ایک خوف جو گھر بیٹھنے میں ہے
مچ میکانل ڈونلڈ ٹرمپ کی دستک کے خوف سے گھبرا کر چار سال تک باہر کی گھٹن کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے ‘ اس دستک کا خوف اب بھی باقی ہے یہ کسی بھی وقت سنائی دے سکتی ہے مگر جب تک سینٹ میں مﺅاخذے پر ووٹنگ نہیں ہو جاتی ٹرمپ کسی سینیٹر کو ناراض کرنیکی غلطی نہیں کریں گے وہ اسوقت تک ہوا کے رخ کو دیکھنے پر قناعت کریں گے ٹویٹر کی طاقت کے چلے جانے کے بعد وہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتے اس دلچسپ صورتحال پر شاد عظیم آبادی کے اس شعر کیساتھ اس کالم کا اختتام کرتے ہیں اگلی نشست میں امریکی سیاست کے عبقری سینیٹر مچ میکانل کی موقع پرست سیاست کے اسرارو رموز پر مزید بات ہو گی۔
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کے خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے