آپ پوچھ سکتے ہیں کہ میںامریکی سیاستدانوں کی موقع پرستی کے قصے کیوں بیان کر رہا ہوں اپنے دیس کی تاریخ تو چھوڑیئے ہر روز کے اخبارات حکمرانوں کی ابن الوقتی‘ فریب دہی اورچالبازیوں کی ہوشربا داستانوں سے بھرے پڑے ہیں میں امریکی سینٹ کے اقلیتی لیڈرکے نامہ اعمال کی ورق گردانی کر کے کیا ثابت کرنا چاہتا ہوں مجھے اگر سیاسی شعبدہ بازی پر نکتہ آرائی کرنا ہے توبراڈ شیٹ کے ڈرامائی اور سنسنی خیز انکشافات کو موضوع سخن کیوں نہیں بناتایا پھر فارن فنڈنگ کیس پر طبع آزمائی کیوں نہیں کرتا اس طلسم ہوشربا کے ہوتے ہوے میں امریکی سیاست کے پیاز کے چھلکے کیوں ادھیڑ رہا ہوں بھوسے کے اس ڈھیر سے کوئی سوئی برآمد نہ ہو سکے گی اور میں نے اگر دیار فرہنگ میں کسی میر جعفر یا میر صادق کو دریافت کر بھی لیا تو بات بن نہ سکے گی شاعر نے اسی بات کو یوں برتا ہے
فانی بس اب خدا کیلئے ذکر دل نہ چھیڑ
جانے بھی دے بلا سے رہا یا نہیں رہا
آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیںکہ اب اگر مچ میکانل نے ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاﺅس سے رخصتی کے بعد اس سے راستے جدا کر لئے ہیں تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا تاریخ کے کٹہرے میںکھڑے ایک ملزم کی پشت پناہی آخر کب تک کی جاسکتی ہے آپکے سوالات اور اعتراضات بجا اور قابل اعتنا ہیں مگر میکانل نے بھی تو چار سال کی مکمل تابعداری کے بعد اچانک ایک کڑے موقعے پر ڈونلڈ ٹرمپ کا ساتھ چھوڑ کے خود کو رائے عامہ کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے عوام کا منتخب کیا ہوا نمائندہ کسی بھی ملک کا ہو اسنے قانون اور آئین کی پاسداری کے علاوہ عزیمت اور استقامت کے معیار پر بھی پورا اترنا ہوتا ہے اس سے اگر پاکدامنی کی توقع نہ بھی کی جائے تو ایک قابل تقلید مثال قائم کرنیکا تقاضا تو کیا جا سکتا ہے وہ اگر پست رویوں کی حوصلہ شکنی نہیں کرتا اور آزمائش کی گھڑی میں ثابت قدم نہیں رہتا تو اسے قیادت کے قابل کیسے سمجھا جا سکتا ہے آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مچ میکانل کے اس مقدمے کی کاروائی امریکہ کی عوامی عدالت میںہونی چاہئے کسی دوسرے ملک کو اس سے کیا غرض‘ گذارش یہ ہے کہ براڈ شیٹ اور فارن فنڈنگ کیس میں بھی توحکمرانوںکی بد دیانتی ‘ لالچ اور دھوکہ دہی کی دہائی دی جا رہی ہے ان مقدمات میں میڈیا فریاد کناں ہے کہ انکے ملک کی قسمت میںایسے ظالم‘ سفاک اور بے حس حکمران کیوں لکھ دئے گئے ہیں انکی تقدیر کب بدلے گی انہیں کب راست باز‘ دیانتدار‘ اصول پرست اور انصاف پسند حکمران میسر آئیں گے بات دونوں جگہوں پر حکمرانوںکے کردار اور اخلاقی اوصاف کی ہو رہی ہے دونوں ملکوں کے دانشور اور تجزیہ نگار اپنی آنکھوں کے سامنے قانون اور انصاف کی دھجیاںبکھرتے ہوے دیکھ کر خاموش نہیں رہنا چاہتے یہاں سعداللہ شاہ کا یہ شعر حسب حال ہے
تو بھی خاموش رہا شہر کے برجوں کی طرح
میں تو سمجھا تھا میرے یار کہ تو بولے گا
اہل فکر و نظر کہہ رہے ہیں کہ بہت ہو چکاEnough is enough آج دونوں ملکوں میں پوچھاجا رہا ہے کہ اتنا کچھ ہو جانے کے با وجود نظام حکومت چل کیسے رہا ہے یہ گاڑی رک کیوں نہ گئی کالم نگار ٹام فریڈ مین کے الفاظ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے چارسالہ دور صدارت کے بعدحکومتی نظام ایکOverheated steam engine یعنی دہکتا ہوا سٹیم انجن بن چکا ہے پاکستان کا سٹیم انجن تو کئی عشروں سے دہک رہا ہے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اسکے پھٹنے کا انتظار کیوں کیا جا رہا ہے شاعر نے اس صورتحال کے بارے میں کہا ہے۔
دیواریں تنی ہوئی کھڑی تھیں
اندر سے مکان گر رہا تھا
امریکہ میں جب ڈونلڈ ٹرمپ کے کرتوتوں کا ذکر آتا ہے تو انگلیاں مچ میکانل کی طرف بھی اٹھ جاتی ہیں انہیں سابقہ صدر کے Enabler یعنی استعداد بخشنے والے کے خطاب سے نوازا گیا ہے دونوں ملکوں میں دہکتے ہوے سٹیم انجن سے آواز آرہی ہے کہ اس الاﺅ کو جلانے میں کسی ایک شخص کا ہاتھ نہ تھا اسمیں چند پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیںقومی نوعیت کے جرائم کی صلیب کسی ایک شخص کے کاندھے پر نہیں رکھی جا سکتی اسمیں کئی ٹولے اور گروہ شامل ہوتے ہیںدونوں ملکوں کا میڈیا کہہ رہا ہے کہ احتساب کی چھڑی سے کسی ایک شخص کو ہانک کر قانون اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جا سکتے احمد فراز نے کہا ہے
آ فصیل شہر سے دیکھیں غنیم شہر کو
شہر جلتا ہو تو تجھ کو بام پر دیکھے گا کون
ڈونلڈ ٹرمپ نے آف شور کمپنیوں میں قومی سرمایہ منتقل نہیں کیا نہ ہی اسنے فارنگ فنڈنگ لی ہے مگر اسنے ملک کو بڑی بیدردی سے دو متحارب گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے ‘ اسنے ریاستی اداروں کو جھنجھوڑ ڈالا ہے اسنے منتخب نمائندوں کو بیوقوف اور بزدل بنا کر جمہوری اقدار کا مذاق اڑایا ہے ٹام فریڈمین نے بیس جنوری کے کالم کا آغاز کرتے ہوے نہایت معصومیت سے کہاہے Folks we just survived something pretty crazy awfulیعنی لوگو ہم ایک مضحکہ خیز اور بھیانک دور سے گذر آئے ہیں بیس جنوری کی دوپہر بارہ بجے ڈونلڈ ٹرمپ کا اقتدار اختتام پذیر ہوا اور اسی دن جو بائیڈن نے چھیالیسویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا امریکہ کو لاحق امراض کے بارے میں فریڈمین نے لکھا ہے کہ جو بائیڈن کو ہمیں یقین دلانا پڑیگا کہ وہ ہمیں متحد کر سکتا ہے‘ وہ ملک کو ری فوکس اورDe Program کر سکتا ہے اس کام کیلئے اسے سینٹ میں اقلیتی لیڈر مچ میکانل کے تعاون کی ضرورت ہو گی یہ کوئی آسان کام نہ ہو گا دونوں کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے مچ مکانل کی شخصیت اور کردار پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں آج اسے با آواز بلند ڈونلڈ ٹرمپ کا شریک کار کہا جا رہا ہے اس پر مزید بات اگلے کالم میں ہو گی۔