سیاست اور موقع پرستی

 بائیس جنوری کو امریکی سینٹ کے نئے اور پرانے چئیرمین اس بات پر متفق ہو گئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مؤاخذے کو دو ہفتے تک ملتوی کر دیا جائے نئے ڈیموکریٹک چیئرمین چک شومر پر یہ دباؤ تھا کہ وہ مؤاخذے کی کاروائی کو جلد از جلد ختم کریں تا کہ صدر بائیڈن یکسوئی سے اپنے ایجنڈے پر توجہ دے سکیں نیویارک کے سینیٹر چک شومر نے یہ کہہ کر اپنی پارٹی کو مطمئن کر دیا کہ ان دو ہفتوں میں جو بائیڈن کی کابینہ کے ارکان کی تعیناتی کو جلد از جلد سینٹ کمیٹی سے منظور کروا دیا جائیگا اور یوں وہ  اپنا کام تیزی سے جاری رکھ سکیں گے دوسری طرف بیس جنوری تک سینٹ کے چیئرمین رہنے والے ریپبلیکن سینیٹر مچ میکانل نے اس معاہدے کے حق میں یہ دلیل دی کہ ان دو ہفتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا مقدمہ تیار کرنیکا وقت مل جائیگا اسکے ساتھ ساتھ ریپبلیکن پارٹی کے سینیٹروں کو بھی ووٹ دینے سے پہلے سوچ بچار کے لمحات میسر آجائیں گے اسطرح سے کوئی یہ نہ کہہ سکے گا کہ ٹرمپ کا سینٹ ٹرائل جلدی میں کیا ہوا غیر منصفانہ اقدام تھا مچ میکانل نے اس معاہدے کے حق میں یہ دلیل بھی دی کہ یہ مؤاخذہ ایک پیچیدہ قانونی اور آئینی معاملہ ہے اور اسے کسی بھی صورت عجلت میں نہیں نمٹانا چاہئے سینٹ کے سابقہ چیئرمین اور موجودہ اقلیتی لیڈر مچ میکانل نے ایک کتاب لکھی ہے جسکا عنوان The Long Game ہے اسکے علاوہ وہ چار سال تک ڈونلڈ ٹرمپ کے وفادار بھی رہ چکے ہیں اسلئے انکے پرستار اور نقاد دونوں انکی ہر بات کو ایک لمبا کھیل سمجھتے ہوئے انکے الفاظ کی ظاہری ساخت و پرداخت پر یقین کرنیکی بجائے انکے اندر چھپے ہوئے معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اسکے باوجود انکی بات کی اکثر و بیشتر مکمل تفہیم نہیں ہو پاتی اور وہ غالب کے اس شعر کی تصویر بن جاتے ہیں 

یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل انکو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

وہ کیونکہ ایک منجھے ہوے‘ تجربہ کار اور گھاگ سیاستدان مانے جاتے ہیں اسلئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی معنی خیز باتوں کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ

کچھ سیکھ لو لفظوں کے برتنے کا سلیقہ
اس شغل میں گذرا ہے بہت وقت ہمارا  


ریاست کینٹکی کے سینیٹر میکانل اسوقت اپنے سیاسی کیرئر کے کٹھن ترین دور سے گذر رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایوان نمائندگان کے ستر فیصد ریپبلیکن آج بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور سینٹ میں بھی سترہ ریپبلیکن سینیٹروں کے ووٹ لیکر مؤاخذے میں ٹرمپ کو ودسری مدت صدارت کا امیدوار ہونے سے محروم کرنا بھی آسان کام نہیں وہ ریپبلیکن لیڈر جنہوں نے چھ جنوری کو الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی تصدیق کر کے جو بائیڈن کی صدارت پر مہر تصدیق ثبت کی وہ بھی سفید نسل پرستوں سے گھبرائے ہوئے ہیں انہیں بھی آئے روز دھمکیاں مل رہی ہیں اس الاؤ کو دیکھتے ہوے بھی میکانل نے کہہ دیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ  نے ہجوم کو اکسا کر ایک Impeachable Offenceیعنی قابل مؤاخذہ حرکت کی ہے انہوں نے ابھی تک یہ نہیں کہا کہ وہ ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیں گے یا نہیں وہ ہوا کا رخ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن سامنے کی بات یہی ہے کہ وہ ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیں تب بھی فیصلہ انکے خلاف جائے گا کیونکہ اس صورت میں ان سے پوچھا جائیگا کہ اگر پہلے مؤاخذے میں انہوں نے ٹرمپ کی مخالفت کر کے اسے صدارت سے محروم کرنیکی کوشش کی ہوتی تو یہ نوبت نہ آتی  اور اگر وہ ٹرمپ کے حق میں ووٹ دیکر لوگوں کو حیران کرتے ہیں تب بھی فیصلہ انکے خلاف ہی جائیگا کیونکہ وہ ان پر ایک قابل مؤاخذہ حرکت کے ارتکاب کا الزام لگا چکے ہیں اور اسکے ساتھ ہی ریپبلیکن سینیٹروں کا ایک گروہ ان سے مطالبہ کر رہا ہے کہ ریپبلیکن پارٹی کو ٹرمپ کے تسلط سے نجات دلانے کا وقت آگیا ہے وہ نہ جا ئے رفتن نہ پائے ماندن کی صورتحال سے دو چار ہیں مگر لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں ایسے میں ان پر لکھی ہوئی ایک کتاب سے استفادہ کیا جا سکتا ہے The Cynic کے عنوان سے لکھی ہوئی کتاب کے مصنف Allec MacGillis  نے کہا ہے کہ McConnell never does anything unless it serves the interest of Mitch McConnell یعنی میکانل کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو اسکے اپنے مفاد میں نہ ہو اب ٹرمپ کے حق میں یا اسکے خلاف ووٹ دیکر میکانل کیا حاصل کرنا چاہتا ہے مصنف کے ایک حالیہ انٹرویو کے مطابق میکانل‘  ٹرمپ کی جگہ ریپبلیکن پارٹی کا ہیرو بننا چاہتا ہے اسوقت 78 سالہ سینیٹر کو اپنی سیاسی وراثت کی فکر بھی لاحق ہے وہ یہ داغ ماتھے پر سجائے سیاسی منظر نامے سے رخصت نہیں ہونا چاہتا کہ اسنے آ خری دم تک ایک قانون شکن‘ ہٹ دھرم اور بر خود غلط صدر کی تابعداری کی اس بارے میں MacGillis نے کہا ہے کہ History will not treat him well اسلئے کہ اسنے ہمیشہ موقع پرستی کی سیاست کی ہے اسکی کئی مثالیں دیتے ہوے مصنف نے لکھا ہے کہ کسی زمانے میں ریپبلیکن پارٹی کاروباری اشرافیہ کی گود میں ہوتی تھی پھر اسنے دیکھا کہ صرف سرمایہ ہی الیکشن جیتنے کیلئے کافی نہیں اسلئے اسنے مذہبی حلقوں کا رخ کیا اور Evangelical ووٹروں سے رسم و راہ بڑھا لی چند سال پہلے ریپبلیکن پارٹی بجٹ خسارے کے خلاف تھی اور اسے کم کرنے کیلئے کاروباری طبقے پر ٹیکس لگانے کی مخالفت نہ کرتی تھی پھر ٹرمپ کے دور میں جب بجٹ خسارہ بڑھتا ہی چلا گیا اور اسنے کاروباری طبقے پر ٹیکس لگانے سے انکار کر دیا تو مچ میکانل نے اسکی ذرہ بھر مخالفت نہ کی‘  ڈونلڈ ٹرمپ روس کے صدر پیوٹن کے خلاف کوئی بات سننا نہ چاہتا تھااسکے برعکس ریاستی ادارے روس پر امریکی حکومت کے کمپیوٹر ہیک کرنے کے الزامات لگا رہے تھے ان دنوں میکانل نے پیوٹن کی اس حد تک طرفداری کی کہ امریکی میڈیا اسے ماسکو مچ کہنے لگا چند سال پہلے ریپبلیکن پارٹی فری ٹریڈ کے حق میں ہوا کرتی تھی پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین‘ یورپی یونین اور کئی دوسرے مغربی ممالک پر بھاری بھرکم محصولات لگا کر آزادانہ تجارت کو سخت نقصان پہنچایا مچ میکانل اسوقت بھی خاموش رہا حتیٰ کہ چھہ جنوری آ گیا اب ایک دانشور نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ Well. Live by the mob die by the mob یعنی جو ہجوم کے سہارے جیتا ہے وہ اسی کے ہاتھوں مرتا بھی ہے ہر موقع پرست سیاستدان کا یہی انجام ہوتا ہے وہ ہیرو بنتے بنتے زیرو بن جاتا ہے شاعر نے اس مضحکہ خیز صورتحال کے بارے میں کہا ہے۔


حسرتیں دل کی مجسم نہیں ہونے پاتیں 
خواب بننے نہیں پاتا کہ بگڑ جا تا ہے