بائیڈن انتظامیہ نے ابھی تک افغان مذاکرات کے بارے میں کوئی پالیسی سٹیٹمنٹ نہیں دی مگر واشنگٹن سے کابل تک مختلف فورمز پر ہونیوالی گفتگو سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ طالبان تعلقات کا منظر نامہ تبدیل ہو گیا ہے واشنگٹن اور کابل میں حکام کے مابین گذشتہ ہفتے ہونیوالے مختلف رابطوں سے جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ طالبان ہنی مون پیریڈ ختم ہو گیا ہے اور اب بائیڈن حکومت کا جھکاؤ واضح طور پر اشرف غنی حکومت کی طرف ہے نئے صدر کی فارن پالیسی ٹیم اس بات کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھتی ہے کہ طالبان کو پر تشدد کاروائیاں ختم کر دینی چاہئیں یہ ابھی واضح نہیں ہوا کہ اگر طالبان نے یہ شرط تسلیم نہ کی تو کیا امریکہ مذاکرات ختم کر دیگا صدر بائیڈن کیلئے اس سمت میں پیشرفت اسلئے مشکل ہو گی کہ وہ صدارت سنبھالنے سے پہلے اور بعدمیں بھی امریکہ کی نا تمام جنگوں کو ختم کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں انتخابی مہم کے دوران انہوں نے امریکہ کی عسکری طاقت کے استعمال کی مخالفت کرتے ہوے کہا تھا I will end the forever wars انتیس جنوری کو واشنگٹن کے والٹر ریڈ نیشنل ملٹری میڈیکل سینٹر میں زخمی فوجیوں سے بات چیت کرتے ہوے نئے صدر نے کہا کہ انہوں نے جنگ کی تباہ کاریوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے اس موقع پر موجود ڈاکٹروں اور میڈیکل سٹاف سے مخاطب ہو کر انہوں نے کہا کہ ”آپ لوگوں نے میری فیملی کیلئے بہت کچھ کیا ہے میرا بیٹا بیو بائیڈن ایک سال تک عراق میں ڈیوٹی دینے کے بعد glioblastoma (برین کینسر کی ایک قسم) میں مبتلا ہو گیا تھا اس مشکل وقت میں آپ نے میرا بہت ساتھ دیا تھا“ صدر بائیڈن نے کہا You took care of him in his final days, with great grace and dignity صدر امریکہ نے اپنی نئی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوے کہا کہ اب انہیں جنگوں کو جاری رکھنے یا ختم کرنے کے مشکل فیصلے کرنے ہیں۔امریکہ میں خارجہ پالیسی سے متعلق فیصلے ہمیشہ سیاسی جماعتوں کی سطح پر ہوتے رہے ہیں دونوں بڑی جماعتیں ہمیشہ صدارتی الیکشن سے پہلے ہی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کے بارے میں اہم فیصلے کر لیتی ہیں بعد ازاں نیا صدر بدلتے ہوے حالات کی روشنی میں اپنے صلاح کاروں سے مشورہ کرکے پہلے سے طے شدہ پالیسی میں ردو بدل کر لیتا ہے ڈونلد ٹرمپ نے تمام حکومتی معاملات کو اپنی پسند نا پسند اور تعصبات یا پھر چند قریبی مشاہیر کے مشوروں تک محدود کردیا تھا جو بائیڈن کی فارن پالیسی ٹیم نے انتخابی مہم کے دوران ہی کہہ دیا تھا کہ افغان مذاکرات کو جاری رکھنے کیلئے پر تشدد واقعات کا ختم ہونااور افغانستان میں امن کا قیام نہایت ضروری ہے اب جو بائیڈن اس لحاظ سے ایک دوراہے پر کھڑے ہیں کہ وہ اگر افغان جنگ کو ختم کرنے کے وعدے کو پورا کرتے ہیں تو انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح طالبان حملوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مذاکرات جاری رکھنا پڑیں گے یا پھر مذاکرات کو تشدد کے خاتمے سے مشروط کرنا ہوگا دوسری صورت میں طالبان دوحا مذاکرات کو ختم کرنیکا اعلان کر سکتے ہیں یہ طالبان اور جو بائیڈن دونوں کیلئے ایک مشکل فیصلہ ہو گا دونوں فریق ایک سال تک وقتاّّ فوقتاّّ جاری رہنے والی بات چیت کو ختم کرکے میدان جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نہیں ہونا چاہتے مگر طالبان تشدد ختم کرنے پر آمادہ نہیں وہ ایک عرصے سے کابل میں عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں اور جو بائیڈن انکے مطالبات تسلیم کرنے پر رضامند نہیں ہیں بائیڈن کی جنگوں کو ختم کرنے سے جذباتی وابستگی اپنی جگہ مگر وہ افغان جنگ کے اختتام کا فیصلہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی پہلے سے طے شدہ پالیسی کے مطابق کرنا چاہتے ہیں یہ فیصلہ کیونکہ مشکل ہے اسلئے وہ فی الحال جنگ و امن کے معاملے پر انشراح صدر سے گفتگو کرنے سے گریز کر رہے ہیں مگر گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک کر رہی ہیں انکے پاس وقت زیادہ نہیں ہے گذشتہ سال انتیس فروری کے معاہدے کے مطابق امریکہ نے یکم مئی سے پہلے افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا مکمل کرنا ہے۔دوحا مذاکرات میں ایک اہم موڑ اسوقت آیا جب جمعرات کے روزپینٹا گون کے ترجمان جان کربی نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ طالبان اگر معاہدے کے مطابق افغان نیشنل فورسز پر حملے بند نہیں کرتے تو ہمارے لئے مذاکرات کے راستے پر چلنا دشوار ہو جائیگا اسکے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ But we are still committed to that اسکے جواب میں اگلے دن طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ جان کربی کے الزامات بے بنیاد ہیں‘ اب سوال یہ ہے کہ جان کربی کے کونسے الزامات بے بنیاد ہیں طالبان ملک بھر میں حملے تو کر رہے ہیں اور ہلاکتیں بھی آئے روز ہو رہی ہیں اس سوال و جواب کا جو مطلب بھی ہو یہ ظاہر ہو چکا کہ امریکہ طالبان اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں ان حالات میں افغان مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی پینٹا گون کے ترجمان کے مطابق امریکہ کیلئے مشکل ترین مرحلہ طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی تھی جس پر افغان حکومت کو آمادہ کرنا آسان نہ تھا مگر یہ مشکل مرحلہ طے کر کے امریکہ نے جنگ کے خاتمے سے اپنی کمنٹمنٹ کا ثبوت دے دیا اب امریکہ افغانستان میں تشدد کا خاتمہ کر کے طالبان کی کابل حکومت میں شرکت کیلئے راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔اسوقت افغانستان میں باقی رہ جانیوالی امریکی افواج کی تعداد 2500 ہے اب اگر امریکہ معاہدے کے مطابق یکم مئی تک انخلا مکمل نہیں کرتا تو طالبان اسکے جواب میں تشدد کے واقعات میں اضافہ کر دیں گے بائیڈن حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ طالبان نے ابھی تک معاہدے کے مطابق دہشت گرد گروپوں سے اپنے تعلقات ختم نہیں کئے دوحا مذاکرات اسلئے بھی تعطل کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں کہ صدر بائیڈن کے مشاہیر نے میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ بھی کہا ہے کہ This agreement is conditioned based یعنی کہ یہ معاہدہ بعض شرائط کی بنیاد پر کیا گیا ہے اگر طالبان یہ شرائط پوری نہیں کرتے تو اس صورت میں افغانستان میں امریکی افواج کے قیام میں توسیع کی جا سکتی ہے چند روز پہلے نیشنل سیکورٹی ایڈ وائزر Jake Sullivan نے کابل میں اپنے ہم منصب حمداللہ محب کیساتھ ایک گھنٹہ فون پر بات چیت کے دوران انہیں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا اسکے علاوہ بدھ کے روز طالبان کے ڈپٹی لیڈر ملا عبدلغنی برادرنے تہران میں جہاں انکا پر تپاک استقبال کیا گیا کہا کہ طالبان امریکہ پر اعتماد نہیں کرتے اور وہ سی بھی ایسے گروہ کا مقابلہ کر سکتے ہیں جو امریکہ کے خریدے ہوے کرائے کے قاتلوں کا کردار ادا کر رہا ہے افغان جنگ کے اس بدلتے ہوے منظر نامے پر مزید بات اگلے کالم میں ہو گی۔