چار فروری کے دن امریکی محکمہ خارجہ میں صدر جو بائیڈن نے پریس بریفنگ میں چین‘ روس‘ سعودی عرب اور میانمار کے بارے میں اپنی حکومت کی پالیسی کا اعلان کیادو بڑی عالمی طاقتوں کے بارے میں نئے صدر گاجر اور چھڑی کی سیاست پرعمل پیرا ہوتے نظر آرہے ہیں البتہ سعودی عرب کو انہوں نے واضح طور پر یمن جنگ ختم کرنیکا مشورہ دیا ہے انکے لب و لہجے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر یہ جنگ ختم نہ کی گئی تو ریاض کی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا میانمار کی فوجی حکومت کو جمہوریت بحال کرنیکی جو تنبیہ کی گئی ہے اس پر عمل ہوتا اس لئے نظر نہیں آرہا کہ نئے سپریم لیڈر جنرل ہلا ینگ کو چین اور روس کی مکمل حمایت حاصل ہے‘صدر بائیڈن کے اس بیان کی جو رپورٹ میں نے پڑھی ہے اس میں افغان امن مذاکرات کا کوئی ذکر نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امریکی صحافیوں نے خارجہ پالیسی کے اتنے اہم مسئلے پر کو ئی سوال نہ پوچھا ہو‘یہ پریس بریفنگ اس تحریر سے چند گھنٹے پہلے دی گئی تھی اس لئے ہو سکتا ہے کہ اسکی مکمل رپورٹ پانچ فروری کے اخبارات میں شائع ہو جائے اب تک کی اطلاعات کے مطابق نئے صدر دوحا مذاکرات کو جاری رکھنے کے حق میں نظر نہیں آرہے‘تین فروری کو دونوں بڑی جماعتوں کی قائم کردہ کانگرس کمیٹی جس کا نام افغان سٹڈی گروپ ہے کی رپورٹ شائع ہوئی اس میں کہا گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو افغانستان سے فوج کی واپسی کے عمل کواس لئے روک دینا چاہئے کہ وہاں سکیورٹی کی صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے ان حالات میں اگر باقی ماندہ2500 امریکی فوجی بھی واپس بلا لئے گئے تو افغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فروری 2020 ء کے امریکہ طالبان معاہدے کے مطابق یکم مئی تک امریکی افواج کے مکمل انخلاء کے امکانات ختم ہو گئے ہیں اسکے ساتھ ہی امن مذاکرات بھی جاری رہتے ہوئے نظر نہیں آ رہے‘سٹڈی گروپ کی رپورٹ میں بائیڈن حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ یکم مئی کی ڈیڈ لائن کو اہمیت دینے کی بجائے یہ دیکھا جائے کہ طالبان نے کس حد تک امن معاہدے پر عمل کرتے ہوئے تشدد میں کمی کی ہے‘ نظر یہی آرہا ہے کہ کانگرس کی Bi Partisan کمیٹی طالبان سے تشدد میں کمی کا وہ مطالبہ منوانا چاہتی ہے جو اس نے پچھلے ایک سال میں نہیں مانااب دیکھنا یہ ہے کہ صدر بائیدن اس مشورے پر من وعن عمل کرتے ہیں یا وہ طالبان کیساتھ بھی گاجر اور چھڑی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں ہر دو صورتوں میں دوحا مذاکرات جاری رہتے ہوے نظر نہیں آ رہے کانگرس کمیٹی کیونکہ دونوں سیاسی جماعتوں کی فارن پالیسی ماہرین پر مشتمل تھی اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے امن مذاکرات کے خاتمے کے بعد کی صورتحال پر غورو خوض نہ کیا ہو گا‘رپورٹ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کانگرس کمیٹی نے طالبان کے عدم تعاون کی صورت میں نہ صرف جنگ جاری رکھنے کا مشورہ دیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ دو ہزار مزید امریکی فوجی بھی افغانستان بھیج دیئے جائیں‘اس رپورٹ میں پاکستان کا نام لئے بغیر یہ کہا گیا ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے طالبان کو تشدد میں کمی پر آمادہ کرنا چاہئے پاکستان کیساتھ بائیڈن انتظامیہ کے تعلقات کے بارے میں بھی اچھی خبریں نہیں آرہیں گزشتہ ہفتے نئے سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ اپنی پہلی گفتگو کا آغاز امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے مقدمے کے بارے میں گفتگو سے کیااخبارات کے مطابق انٹونی بلنکن ڈینیئل پرل کے مبینہ قاتل احمد عمر شیخ کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق رہائی کے حق میں نہیں ہیں اس معاملے میں امریکہ کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے مقدمات میں استغاثہ مضبوط گواہ پیش کرنے اور معقول دلائل دینے کی بجائے کمزور مؤقف اختیار کرتا ہے جسکی وجہ سے دہشت گرد رہا کر دیئے جاتے ہیں‘افغان مذاکرات کے بارے میں سیکرٹری آف سٹیٹ نے اپنے ہم منصب سے یہ کہا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں کیا کیا جانا چاہئے کانگرس کمیٹی کی رپورٹ اور انٹونی بلنکن کی گفتگو کے تناظر میں امریکہ پاکستان سے ایک مرتبہ پھر ڈو مور کا تقاضا کرتے ہوئے نظر آ رہا ہے ڈینئل پرل کا مقدمہ آج کل دونوں ممالک کے میڈیا کی راڈار سکرین پر نمایاں طور پر موجود ہے امریکی اخبارات اس حوالے سے پاکستان کے FATF یا فا ئنینشل ایکشن ٹاسک فورس کو جوابدہ ہونے کا ذکر بھی کر رہے ہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ اس ادارے سے پاکستان کو کسی نرمی کی امید نہیں کرنا چاہئے امریکی میڈیا نے جس شدت کے ساتھ ڈینئل پرل کے مقدمے کو ایک مرتبہ پھر اٹھایا ہے وہ خاصا توجہ طلب ہے انیس برس پہلے کراچی میں قتل ہونیوالے وال سٹریٹ جنرل کے ممتاز صحافی کے بارے میں آج کل نہ صرف با تصویر خبریں شائع ہو رہی ہیں بلکہ نیو یارک ٹائمز‘ وال سٹریٹ جنرل اور واشنگٹن پوسٹ نے اس موضوع پر طویل اداریے بھی لکھے ہیں ان میں سے دو اخبارات ایسے ہیں جنہوں نے چار سال تک مسلسل ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت کی اور بالآخراسے صدارت سے سبکدوش کرکے ہی دم لیا‘یہ اخبارات اور کانگرس کمیٹی اگر امریکہ کی ناتمام جنگ کو نا تمام ہی رکھنا چاہتے ہیں تو فی الحال انکے راستے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی بائیڈن انتظامیہ بھی امن مذاکرات کے معاملے میں طاقت کے ان دو ستونوں سے متفق نظر آتی ہے براک اوباما کی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن اور انکے ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن آٹھ برس پہلے بھی پاکستان کے بارے میں معاندانہ رویہ رکھتے تھے اب اگر جو بائیڈن ڈو مور کی اس ناقص اور از کار رفتہ پالیسی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو اسکے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ بائیڈن حکومت جنوبی ایشیا کو ایک مرتبہ پھر امن کی طرف بڑھنے کی بجائے ایک طویل جنگ میں الجھا کر عدم استحکام کے اضطراب میں مبتلا کرنا چاہتی ہے نظر یہی آ رہا ہے کہ بائیدن کی ٹیم پاکستان کیساتھ پرانے حساب کتاب بیباک کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے لیکن اس نا عاقبت اندیش پالیسی کی اپنی ایک قیمت ہو گی امریکہ کی طویل ترین نا تمام جنگ اگر اگلے دو سال بھی جاری رہتی ہے تو 2022 میں کانگرس کے انتخابات میں امریکی عوام ڈیمو کریٹک پارٹی کا وہی حشر کریں گے جو اس نے باراک اوباما کی حکومت کیساتھ 2010 ء میں کیا تھا ان انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی ایوان نمائندگان کی اڑتیس سیٹیں ہار کر اقلیتی جماعت بن گئی تھی‘کانگرس کمیٹی کی رپورٹ کے مصنفین نے اعتراف کیا ہے کہ یکم مئی کو مکمل انخلا نہ ہونے کی صورت میں طالبان نیٹو افواج پر ایک مرتبہ پھر حملے شروع کر دیں گے اس صورتحال کے تدارک کیلئے یہ تجویز دی گئی ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کو متنازعہ معاملات طے کرنے کیلئے مزید وقت دیا جائے طالبان پہلے ہی یکم مئی کے بعد جارحانہ رویہ اختیار کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں ان حالات میں امن مذاکرات کا اگلا پڑاؤ دوحا کی بجائے افغانستان کا دہکتا ہوا میدان جنگ نظر آرہا ہے۔