خیرپور کا محل اور پشاور کے بوسیدہ گھر۔۔۔

وہ لوگ جنہیں یہ معلوم نہیں کہ KPK کی حکومت دلیپ کمار اور راج کپور کے گھر کیوں خرید رہی ہے انکی معلومات میں اضافے کیلئے یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ پشاور کے لوگوں کا ایک دیرینہ مطالبہ ہے کہ ان گھروں کو کھنڈر بننے سے بچا لیا جائے اور انکی عظمت رفتہ سے متعلق حقائق و شواہد کو ایک عجائب گھر میں محفوظ کر لیا جائے اس مطالبے پر پشاور کے اخبارات میں اتنی مرتبہ عبارت آرائی اور قافیہ پیمائی ہوئی ہے کہ بہ زبان شاعر یہ کہا جا سکتا ہے کہ
اب اس سے بڑھ کے بھلا اور مفلسی کیا ہو
تمام شہر نے اک خواب پر گذارہ کیا
یہ خواب بہر حال اہل پشاور کیلئے نہایت قیمتی ہے اب جبکہ یہ مطالبہ ایک طویل ہا ہا کار کے بعد طوعاّّ و کرہاّّ منظور کر لیا گیا ہے تو اسلام آباد کے ایک بڑے اخبار کے کالم نگار نے لکھا ہے ” دوسری طرف ایک اور صوبائی حکومت پشاور چھوڑ کر بمبئی جانیوالے اور پاکستان بننے پر ہندوستان کی شہریت اختیار کرنیوالے یوسف خان عرف دلیپ کمار اور راج کپور کے گھر خرید کر انہیں عجائب گھر بنانے کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز مخصوص کر رہی ہے جو فکرو تردد اور خرچہ خیر پور کے فیض محل پر ہونا چاہئے وہ پشاوری حویلیوں کی نذر ہو رہا ہے“ یہ سطور میں پچھلے کالم میں بھی لکھ چکا ہوں انہیں دہرانا اسلئے ضروری ہے کہ ان سے ٹپکتی ہوئی لاعلمی اور کم آگاہی پر بات کی جائے پہلی بات تو یہ کہ دلیپ کمار پاکستان بننے پر ہندوستان نہیں گئے تھے بلکہ وہ اپنے دادا کے ہمراہ 1928 میں پشاور چھوڑ کر بمبئی گئے تھے اسوقت انکی عمر چھ سال تھی اس ہجرت کی وجہ یہ تھی کہ پشاور میں انکے والد محمد سرورخان کے پھلوں کا کاروبار نفع بخش نہ تھا سرور خان پہلے خود بمبئی گئے بعد ازاں انہوں نے بیوی بچوں کو بھی وہیں بلوا لیا اب دلیپ کمار پر ہندوستان کی شہریت حاصل کرنے کیلئے سفر ہند اختیار کرنیکی تہمت کس حدتک دھری جا سکتی ہے اسکے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ موضوعی رائے اور معروضی حقائق میں بڑا فرق ہوتا ہے ضمیر طالب کا شعر ہے ‘ آنکھیں کچھ اور دیکھتی ہیں یہاں©/اور نظارہ کچھ اور کہتا ہے دوسری بات یہ کہ خیبر پختونخواہ کے محکمہ آثار قدیمہ نے گذشتہ ہفتے دونوں گھروں کیلئے دو کروڑ تیس لاکھ ستاون ہزارروپے کی رقم منظور کی ہے اب اگر ان سوا دو کروڑ روپوں کو ” کروڑوں روپے کے فنڈز“ کہا جا سکتا ہے تو ہماری دست بستہ رائے محض اسقدر ہے کہ سچ کی تفہیم اور سچ کے بیان میں بہت سا فاصلہ ہوتا ہے یہاں سچ کی تفہیم ہی نہیں کی گئی تو اسکے بیان کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے اسکے باوجود اگر صاحب تحریر نے شمشیر خارا شگاف کوبے نیام کر لیا ہے تو اسکی وجہ کیا ہو سکتی ہے تو صاحبان علم و دانش سے التماس ہے کہ اسکی کئی وجوہات ہیںیہاں بوجوہ تین حقائق بیان کرنے پر اکتفا کروں گا آپکو یاد ہوگا کہ ہمارے سابقہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جنکا تعلق ہمارے ممتاز کالم نگار کے شہر ملتان سے ہے نے اپنے دور حکمرانی میں پختونخواکے ہسپتالوںکیلئے وقف شدہ کروڑوں روپے بہ یک جنبش قلم ملتان کے ایک ہسپتال کو ٹرانسفر کر دئے تھے اسوقت پشاور کے اخبارات نے حتی ا لمقدور صدائے احتجاج بلند کی مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے قہر درویش بر جان درویش کے مصداق فریادی خاموش ہو گئے
حکم سلطاں ہے کہ اس محکمہ عدل کے بیچ
دشت فریاد کو اونچا نہ کرے فریادی
آپ کہہ سکتے ہیں کہ وزیر اعظم اور کالم نگار میں بڑا فرق ہوتا ہے کسی نے پشاور کے خلاف دو چار لائنیں لکھ دی ہیں تو خوامخواہ چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرنیکی کیا ضرورت ہے میری گذارش یہ ہے کہ پشاور کو اللہ میاں کی گائے سمجھ لیا گیا ہے اس سلسلہ سنگ زنی کے دراز ہونے سے پہلے اس شہر آرزوکہ جسے جنت کا ایک باب بھی کہا گیا ہے کا دفاع نہایت ضروری ہے اور آجکل آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہمارے مین سٹریم میڈیا پر جنوبی پنجاب کے صحافی چھائے ہوئے ہیں ہمیں خوشی ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد وہ اپنے محروم اور پسماندہ علاقے کا مقدمہ خم ٹھونک کر پیش کر رہے ہیں ممتاز کالم نگار اور صحافی نصرت جاوید صاحب نے عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے پر ایک تبصرہ یہ بھی کیا تھا کہ اب تخت لاہور ملتان منتقل ہو جائیگا ایسا ہوا یا ہے یا نہیں اسکا پتہ تو اکابرین اہل صحافت ہی کو ہوگا ہم جیسے کنج تغافل میں رہنے والے ہمہ دانی کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ زاہد خشک کیا جانے کہ درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیاہمیں یہ الزام بھی دیا جا سکتا ہے
بندھی ہے بھینس کھونٹے سے نہ اپنی گائے رکھتے ہیں
مگر ہم دودھ کے بارے میں اپنی رائے رکھتے ہیں
آفاق کی اس شیشہ گری کی ایک وجہ تواوپر بیان کر دی ہے دوسری یہ ہے کہ بعض لوگ ملتان کو پشاور سے زیادہ قدیم شہر سمجھتے ہیں وہ اس منفرد اعزاز میں کسی کو حصہ دار نہیں بنانا چاہتے اس مقدمے میں وہ کچھ تاریخی شواہد بھی پیش کرتے ہیں اسکا آخری فیصلہ تو مﺅرخین ہی کر سکتے ہیں یہاں صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ خیر پور کے محل سے لیکر کوٹ ڈیجی اور چنیوٹ کے عمر حیات محل تک سب عمارتیں ہمارے ممتاز کالم نگار کے تاریخی حوالوں کے مطابق زیادہ سے زیادہ سوا دو سو سال پرانی ہیںاسکے بر عکس پشاوراور اسکے گردو نواح میں ایسی کئی عمارتیںاور مقامات ہیں جو ہزاروں سال پرانی ہیںایکطرف اس شہر نگاراں کی عظمت و سربلندی کی داستان سناتا ہوا قلعہ بالا حصار ہے تو دوسری طرف گور گھٹری ‘ دریائے باڑ ہ اور عجائب گھر میں پڑے ہوے ہزاروں سال پرانے بدھا کے صندوقچے (Casket) اور مجسمے ہیں جوپشاور کو پاک و ہند ہی کا نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کا قدیم ترین شہر ثابت کرنے کیلئے کافی ہیںاس شہر کو اگر ہمارے مفکرین سیاسیات اپنے مقاصد اولیٰ یا کالماتی ضیافت طبع کیلئے استعمال کرتے ہیں تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ کاواں دے آکھیاں‘ ڈھور نئیں مر دے یعنی کووں کی کائیں کائیں سے جانور نہیں مرتے ریکارڈ کی درستی بہرحال ضروری ہے اسلئے اگلے کالم میں دلیپ کمار اور راج کپور کے گھروں کے مزید ذکر کے علاوہ کچھ بیان قلعہ بالا حصار اور پشاور کی عظمتوں کی داستان سنانے والے چند دوسرے مقامات کا بھی ہو گا۔