خیر پور کا محل اور پشاور کے بوسیدہ گھر۔۔

بعض لوگ دلیپ کمار اور راج کپور کی فنی عظمتوں کو جاننے کے باوجود ان سے اسلئے بغض و عناد رکھتے ہیں کہ شہرت عام اور بقائے دوام رکھنے والے یہ دونوں فنکارپشاور میں پیدا ہوے تھے مجھے یقین ہے کہ یہ دونوں یگانہ روزگار ہستیاں اگر پا ک و ہند کے کسی بھی دوسرے شہر میں پیدا ہوئی ہوتیں تو کئی سال پہلے انکے آبائی گھروں کو میوزیم بنا دیا گیا ہوتاپشاور میں ایسا کیوںنہ ہوا اسکی ان گنت وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ شہر اپنی بے مثال تاریخی عظمت اور ان گنت خوبیوں کے باوجود فنکار کش واقع ہوا ہے یا پھر اسے ایسا بنا دیا گیا ہے پاکستان بھر میں جتنا برا سلوک فنکاروں کیساتھ اس شہر میں ہوتا ہے شائد ہی کسی دوسرے میں ہوتا ہو کسی کو یقین نہیں آتا تو وہ صرف اتنا بتا دے کہ ریڈیو پاکستان اور پشاور ٹیلیوژن کے سٹوڈیوز بھی اگر سنسان پڑے ہوں اور نشتر ہال بھی عرصہ دراز سے بند ہو تو اس شہر کے فنکار دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے کہاں جائیں پشاور ٹیلیوژن سے وابستہ رہنے کیوجہ سے میں جانتا ہوں کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے تمام بڑے شہروں میں ایسے فنکاروں کی کوئی کمی نہیں جو تھوڑی سی سرکاری حوصلہ افزائی کیساتھ نہ صرف اپنے لئے با عزت روزگار حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اس صوبے کے کلچر اور فن و ثقافت کی ترویج و ترقی کا باعث بھی بن سکتے ہیںاس موضوع پر کہنے کو بہت کچھ ہے جو پھر کبھی سہی فی الحال ان دو گھروں کی بات کرتے ہیں جن پر حویلیوں کا لیبل چسپاں کر کے انکے لئے مختص کئے ہوے سوا دو کروڑ روپوں کوسابقہ ریاست خیر پور کے ایک گمنام محل کی تزئین و آرائش پر صرف کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اہل پشاور جانتے ہیں کہ دلیپ کمار کا آبائی گھر قصہ خوانی بازار کے قریب واقع محلہ خداداد کی ایک گلی فیل خانہ نواب ناصر خان میں واقع ہے اس گلی میںسے آج بھی بیسیوں لوگ ہر روز گزرتے ہوں گے اور وہ دلیپ کمار کے اس گھر کو بھی دیکھتے ہوں گے کہ جسے By any stretch of imaginationیعنی تخیل کی کسی بلند ترین پرواز کی مدد سے بھی حویلی نہیں کہا جا سکتااس سو ڈیڑھ سو سال پرانے دو منزلہ مکان میں دلیپ کمار گیارہ دسمبر 1922 کو پیدا ہوئے انکے والد محمد سرور خان جنکا تعلق اعوان برادری سے تھا نے انکا نام یوسف خان رکھا انکے تیرہ بہن بھائی تھے یوسف خان نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ سکول خداداد میں حاصل کی جمعے کے دن وہ اپنے دادا حاجی محمد کیساتھ نماز پڑھنے قصہ خوانی بازار کی تاریخی مسجد قاسم علی خان جایا کرتے تھے اسوقت کے صاف ستھرے اور کشادہ شہر پشاور کے اس گھرانے کو 1927 میں نقل مکانی کر کے بمبئی جانا پڑاانکا چھوڑا ہوا گھرآج چرانوے برس بعد ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اب اسے اگر میوزیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو یہ تاریخ کا ایک قرض ہے جسے ادا کیا جا رہا ہے اس شہر نے اتنے نامور اور عظیم فنکار اور قلمکار پیدا کئے ہیں کہ اسے فنکاروں کا شہر کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا ان فنکاروں میں پرتھوی راج‘ ضیاءسرحدی ‘ حبیب سرحدی‘ ناصر خان ( دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی) راج کپور ‘ لالہ سدھیر اور گذشتہ نصف صدی میںقوی خان‘ فردوس جمال اور رشید ناز شامل ہیں یہ سب فنکار پشاور چھوڑ کر بمبئی‘ لاہور اور کراچی میں آباد ہوئے ان شہروں میں انہوں نے اپنا اور اپنے آبائی شہر پشاور کا نام روشن کیا مادر وطن کیساتھ ان سب کی بے پناہ محبت کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے جو قدر انسبمیں مشترک ہے اسے افتخار عارف نے یوں بیان کیا ہے۔
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
 تھیٹر اور خاموش فلموں کے مایہ ناز اداکار پرتھوی راج جو 1906 میں قصہ خوانی سے متصل کوچہ ڈھکی نعلبندی میں پیدا ہوئے نے بمبئی فلم انڈسٹری اور سٹیج کو بام عروج تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا انکے بیٹوں راج کپور‘ شمی کپور اور ششی کپور نے فن اداکاری سے اپنی بے پناہ وابستگی اور شبانہ روز محنت سے ا نڈین فلم انڈسٹری کو ہالی ووڈ کے بعد دنیا کی دوسری کامیاب اور مشہور ترین فلم انڈسٹری بنا دیا نامور اداکار‘ ہدایتکار اور فلمساز رنبیر راجکپورچودہ دسمبر 1924 کو قصہ خوانی کے محلہ ڈھکی نعلبندی میں پیدا ہوئے دلیپ کمار کی طرح راجکپور کا بچپن بھی پشاور کے گلی کوچوں میں کھیلتے ہوئے اور اس شہر دلربا کی بیریوں کے میٹھے بیر کھاتے ہوئے گذراانکے والد پرتھوی راج پشاور کی ایڈورڈ کالج کے طالبعلم تھے وہ کالج کے ہر سٹیج ڈرامے میں اداکاری کے جوہر دکھاتے تھے فن اداکاری سے انکی محبت1928میں انہیں بمبئی لے گئی جہاں دیکھتے ہی دیکھتے پشاورکا یہ وجیہ اور خوبصورت نوجوان سٹیج اور فلم کے آسمان پر ایک درخشاں ستارے کی طرح چمکنے لگاڈھکی نعلبندی میں واقع انکے گھر کی جو تصویر اخبارات میں شائع ہوتی ہے اسمیں مغلیہ دور کے طرز تعمیر کےمطابق جھروکے والی بالکونیاں دکھائی گئی ہیں اس تصویر کو دیکھ کر ملتان کے ایک ممتاز کالم نگار نے اسے حویلی کا عنوان دے دیا اور حکمنامہ جاری کردیا کہ اس” حویلی“ کیلئے مختص کئے ہوئے ”فنڈز“ کو خیر پور کے محل پر لگا دیا جائے راج کپور کے گھر کو اگر قریب سے دیکھا جائے تو دلیپ کمار کے گھر کی طرح یہ بھی Anything but یعنی سب کچھ ہے مگر حویلی نہیں ہے ضرورت اس بات کی تھی کہ پختونخوا کے اس ثقافتی ورثے کی حفاظت کیلئے وفاقی حکومت گرانقدر رقم مہیا کرتی تا کہ ان بوسیدہ گھروں کو دو پر کشش اور یادگار میوزیم میں تبدیل کر دیا جاتا اس خطیر رقم کو تو رہنے دیجئے صرف سوا دو کروڑ روپے کو دیکھ کر ایک ممتاز کالم نگار کی نیت خراب ہو گئی ہے وہ اسے اپنے شہر ملتان سے باسٹھ میل دور صوبہ سندھ کے ایک محل کی نوک پلک سنوارنے پر لگانا چاہتے ہیںحیرانی ہوتی ہے اس محل کو سدھارنے اور بحال کرن کےلئے کراچی یا لاہور جیسے امیر اور خوشحال شہروں سے تقاضاکیوں نہیں کیا گیاآصف زرداری اور بلاول بھٹو کی توجہ سندھ کے اس ثقافتی ورثے کی طرف کیوں نہیں دلائی گئی ملتان سے 427 میل دور پشاور کو کیوں کشتہ تیغ ستم بنایا جا رہا ہے ذراسو چئے پنجاب کا کالم نگار اگر سندھ کے تاریخی ورثے کے تحفظ کیلئے ہاتھ پاﺅں مار رہا ہے تو ہم پشاور والے اپنے شہر کے ثقافتی ورثے کیلئے کوشش کیوں نہ کریںپختونخوا حکومت کی توجہ اسطرف دلانا ضروری ہے کہ سوا دو کروڑ روپے تو دونوں گھروں کے مالکان کو دے دئے جائیں گے اسکے بعد ان گھروں کو میوزیم بنانے کیلئے جو رقم درکار ہو گی اسکا اعلان بھی کیا جائے۔خیال تھا کہ پشاور کے وسط میں واقع قلعہ بالا حصار کے بارے میں کچھ لکھوں گا اس تاریخی عمارت کا ذکرسب سے پہلے ایک چینی سیاح Shin Fa Hian نے کیا تھا اسے بدھ مت کی دستاویزات جمع کرنیکا شوق تھا وہ پشاور میں 400 CE (Common Era )میں آیا تھااس سے پہلے کشان سلطنت کا خاتمہ 225 CE میں ہوا تھااسوقت کو بدھ مت اور گندھارا تہذیبوں کے اختتام کا آغاز کہا جاتا ہے قلعہ بالا حصار اسوقت بھی موجود تھا اتنی قدیم اور تاریخی عمارت برصغیر تو کیاجنوبی ایشیا میں بھی مشکل ہی سے ملے گی اس قلعے نے آریا‘ مغل‘ ترک‘ افغان‘ ولندیزی ‘ سکھ اور انگریز حملہ آوروں کو اپنے دامن میں پناہ دی ہے صرف اس ایک عمارت کے سینے میں دفن تاریخ ہی پشاور کو اس خطے کا قدیم ترین شہر ثابت کرنے کیلئے کافی ہے (نوٹ: اس کالم میں نامور فنکاروں کی زندگی کے حقائق جاننے کیلئے محمد ابراہیم ضیاءصاحب کی گرانقدر کتاب ”پشاور کے فنکار “سے استفادہ کیا گیا ہے ) ۔