دھند میں لپٹا ہوا الیکشن۔۔۔۔

ڈسکہ میں اس روز اگر دھند نہ ہوتی تب بھی دھاندلی ہونی تھی یہ صرف قومی اسمبلی کی ایک سیٹ نہ تھی بہت کچھ داﺅ پر لگا ہوا تھاپی ڈی ایم اگر اپنے ایجنڈے کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاتی ہے تو اس صورت میں قومی اسمبلی کی ایک سیٹ بھی فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے اسی لئے تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون نے سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے حلقہ این اے 75کا انتخاب جیتنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اس روز اس تحصیل کے ایک گاﺅں گوئند کے میں دو افراد قتل ہوئے ان میں سے ایک کا تعلق تحریک انصاف اور دوسرے کا نواز لیگ سے تھا اسی روز مختلف مقامات پر پولنگ کے دوران دس افراد زخمی ہوئے یوں نفرت اور انتقام کے سفاک ہاتھوں نے کئی خاندان اجاڑ دیئے انتخابی قوانین کے مطابق الیکشن کے دن صوبائی انتظامیہ الیکشن کمیشن کے ماتحت ہوتی ہے اس اعتبار سے پولنگ سٹیشنوں پر امن و امان قائم کرنے کی تمام ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے لیکن انیس فروری کے دن ڈسکہ کے چودہ پولنگ سٹیشنز سے دو درجن کے لگ بھگ پریزائیڈنگ افسر ووٹوں کے تھیلوں سمیت اغواءکر لئے گئے اگلے روز الیکشن کمیشن نے پریس ریلیز جاری کیا ‘ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے اعلامیے کے مطابق انکی کوششوں کے باوجود رات بھر پریزائیڈنگ افسروں سے رابطہ نہ ہو سکاان کا پتہ لگانے کے لئے چیف الیکشن کمشنر نے آئی جی پنجاب‘ سیالکوٹ کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سے رابطے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہ ملاراجہ صاحب نے کہا ہے کہ رات تین بجے ان کا رابطہ چیف سیکرٹری سے ہوا‘ انہوںنے گمشدہ افسران اور پولنگ بیگز کو تلاش کرنے کی یقین دہانی کرائی اگلے دن صبح چھ بجے یہ دودرجن سرکاری افسر ووٹوں کے تھیلوں سمیت خود بخود پولنگ سٹیشنوں پر واپس آگئے اس وقت ریٹرننگ افسرکے پوچھنے پر کسی نے کہا کہ ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی کسی نے کہا گاڑی خراب تھی اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا کہ انہوں نے ٹیلیفون کیوں نہ سنی دو روز بعد ان میں سے دو پریزائیڈنگ افسروںنے میڈیا کو بتایا کہ انہیں گن پوائنٹ پر اغواءکیا گیا تھاتصدق حسین کے بیان کے مطابق ان سے ووٹوں کے تھیلے چھینے گئے اور گولی مارنے کی دھمکی دی گئی دوسرے پریزائیڈنگ افسر نے کہا کہ اغوا ءکرنے والے سپیشل برانچ کے افسر تھے جنہوں نے انکے بچوں کو بھی دھمکیاں دیں‘ ہم نے ووٹوں کے تھیلوں کے غائب ہونے کی خبریں تو اتنی مرتبہ سنی ہیں کہ اب اس قسم کی وارداتوں پر کوئی حیرانگی نہیں ہوتی مگر دو درجن پریزائیڈنگ افسروں کا اغواءاگر پہلے کبھی ہو ا بھی ہو تب بھی اس دور میں اتنی بڑی واردات کم از کم محیر العقول ضرور ہے تحریک انصاف کے وزرا ءنے اس واردات کی صفائیاں پیش کرتے ہوئے حسب توقع تمام تر ذمہ داری مسلم لیگ نون پر ڈال دی فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ڈسکہ کی ضلعی انتظامیہ نواز لیگ کے ساتھ ملی ہوئی تھی پنجاب کی مشیرہ اطلاعات کے اس اتمام حجت نے عثمان بزدار کی اہلیت اور کارکردگی پر ایک مرتبہ پھر سوالیہ نشان لگا دیا ہے پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشدنے اغوا ءکی اس واردات کے جواب میں کہا ہے کہ اس روز چار الیکشن ہوئے تین میں تو امن و امان کی صورتحال ٹھیک تھی ایک میں قانون شکنی ہوئی جسکی تحقیقات کی جائیگی یہ دلیل اس لئے کمزور اور مضحکہ خیز ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان سینٹ کے انتخاب میں سینیٹروںکی خریدو فروخت کے خدشات کے پیش نظر مطالبہ کر رہے ہیںکہ الیکشن شو آف ہینڈ کے ذریعے کرایا جائے اور دوسری طرف پنجاب میں جہاں ان کی اپنی جماعت کی حکومت ہے دن دیہاڑے پریزائیڈنگ افسر ووٹوں کے تھیلوں سمیت اغواءہو جاتے ہیں اتنی بڑی واردات کے بعد دلیل اور تاویل جو بھی دی جائے انگلیاں حکومت وقت ہی کی طرف اٹھتی ہیں انگریزی کا محاورہ ہے The buck stops here یعنی پانی یہیں مرتا ہے‘ یہ ذمہ داری کسی دوسرے کو منتقل نہیں کی جاسکتی عام طور پر امریکی صدر اگر کوتاہی تسلیم کرنا چاہے تو وہ یہ محاورہ استعمال کرتا ہے ہمارے ہاں اگر چہ کہ حکمران اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے مگر دھاندلی کا الزام ایک مرتبہ لگ جائے تو پھر اس کا دھلنا مشکل ہو جاتا ہے بھٹو صاحب کو 1977ءکے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونے پڑے تھے اس کے بعد گزشتہ چالیس سالوں میں جتنی بھی دھاندلیاں ہوئی ہیں ان سب کی باز گشت اب سنائی دے رہی ہے خان صاحب کو تو ووٹ ہی اسی لئے ملے تھے کہ انہوں نے کرپشن اور دھاندلی ختم کرنے کے وعدے کئے تھے
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
 ادھر الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں نتائج کو متنازعہ قرار دیکر 18مارچ کو دوبارہ الیکشن کا فیصلہ کیا ہے‘ اس تحصیل کے 337 پولنگ سٹیشنوں کے مرتب شدہ نتائج کے مطابق نواز لیگ کی نوشین افتخار نے 97588 اور تحریک انصاف کے علی اسجد ملہی نے 94541 ووٹ لئے ہیں ڈسکہ کے الیکشن کی طرح اس سوال کا جواب بھی دھند میں لپٹا ہوا ہے کہ مسلسل چھ برسوں سے جنہیں ببانگ دہل چور اور ڈاکو کہا جا رہا ہے انہوں نے ڈسکہ میں ستانوے ہزار سے زیادہ ووٹ کیسے لئے صرف یہی نہیں مسلم لیگ نون نے تحریک انصاف کے قلعے خیبر پختونخوا میں نوشہرہ PK63 جو کہ وزیر دفاع پرویز خٹک کا حلقہ ہے میںبھی واضح اکثریت سے الیکشن جیت لیا ہے اس معرکے میں نون لیگ کے اختیار ولی نے 21,122 جبکہ تحریک انصاف کے میاں عمر نے 17,023 ووٹ لئے اسی طرح پنجاب اسمبلی کے حلقہ PP51 وزیر آباد میں ضمنی انتخاب کے نتائج کے مطابق نون لیگ کی طلعت چیمہ نے 53903 ووٹ لیکر اپنی خاندانی نشست دوبارہ حاصل کر لی انکے مقابلے میں پی ٹی آئی کے چوہدری یوسف نے 48484 ووٹ لئے دوسرے کئی سوالوں کی طرح یہ سوال بھی دھند میں لپٹا ہو اہے کہ اتنی ہوشربا مہنگائی ‘ غربت اور بیروزگاری کے باوجود پی ٹی آئی کے امیدوار ہزاروں ووٹ لینے میں کیسے کامیاب ہوئے ڈسکہ کی دھند میں لپٹا ہوا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جس حکومت کے دور میں پولنگ سٹیشنوں سے درجنوں پولنگ افسر اغوا ءکر لئے جائیںوہ دو ڈھائی سال بعد ہونے والے عام انتخابات کیسے منعقد کرائے گی فی الحال بہ زبان شاعر یہی کہا جا سکتا ہے کہ
کیا حسیں خواب محبت نے دکھایا تھا ہمیں
کھل گئی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا