امریکی ڈپلومیسی اور داخلی بحران۔۔۔

دو ماہ تک خارجی معاملات پر غورو خوض کرنے کے بعد بائیڈن کابینہ کے دو اہم ارکان اسوقت بحرالکاہل کے ممالک میں اتحادیوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیںسیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن اور سیکرٹری آف ڈیفنس General (R) Lloyd Austinپیر کے دن دو روزہ دورے پر ٹوکیو پہنچے جہاں انہوں نے جاپان کے وزیر خارجہToshimitsu Motegi اور وزیر دفاع Nobuo Kishi سے ملاقات کی اس دورے کے آغاز سے ایک روزپہلے واشنگٹن پوسٹ نے اتوار کے روز ایک مضمون شائع کیا جو بلنکن اور آسٹن کی مشترکہ تحریر تھی اسکا عنوان America's partnerships are force multipliers in the world تھا یعنی دنیا میں امریکہ کی شراکت داری طاقت میں اضا فے کا ذریعہ ہے اس مضمون کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں کو یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ وہ ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر ایک بھر پور کردار ادا کرنے کیلئے میدان میں پوری تیاری کیساتھ واپس آگیا ہے یورپی اتحادیوں نے جوزف بائیڈن کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنے کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ وہ امریکہ سے دوستی تو چاہتے ہیں مگر اب کی بار وہ واشنگٹن پر مکمل انحصار کرنے کی بجائے خارجہ معاملات میں اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے ظاہر ہے کہ یورپی ممالک چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں امریکہ کی مداخلت برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہیںانہیں خدشہ ہے کہ چار سال بعد ڈونلڈ ٹرمپ یا اسکا کوئی ہم خیال وائٹ ہاﺅس میں براجمان ہوا تو پھر کیا ہو گا بحرالکاہل کے ممالک میں بھی امریکہ کیلئے راوی نے چین نہیں لکھا ہوا‘ جاپان ‘ جنوبی کوریا اور انڈیا میں اگر چہ کہ ان دونوں امریکی وزرا ءکا شاندار استقبال ہو گا اور انہیں تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی جائے گی مگریہاں بھی چین نے اتنی پیشرفت کی ہوئی ہے کہ یہ ممالک بھی اپنا سارا وزن امریکہ کے پلڑے میں ڈالنے سے گریز کریں گے لیکن انہیں ایک بڑی عالمی طاقت سے جو عسکری اور اقتصادی فوائد مل سکتے ہیں وہ انہیں سمیٹنے کی پوری کوشش کریں گے واشنگٹن پوسٹ کے مضمون سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ چین کے ساتھ اہم‘ مشکل اور متنازعہ معاملات پر بات چیت سے پہلے بحرالکاہل کے اتحادیوں کو جانچنا چاہتی ہے ‘ کون کس حد تک جا سکتا ہے اور کس پر کتنا انحصار کیا جا سکتا ہے بلنکن اور آسٹن نے لکھا ہے" Our combined power makes us stronger" یعنی ہماری مشترکہ طاقت ہمیں زیادہ مضبوط بناتی ہے اس مشترکہ طاقت کو ” چین کی جارحیت اور دھمکیوں“ کے خلاف استعمال کرنےکا اشارہ بھی دیا گیا ہے چین امریکہ تعلقات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اسکا اندازہ اگلے ہفتے الاسکا کے شہر Anchorage میںامریکہ اور چین کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں ہو گا ۔جاپان کے دورے کے بعد بلنکن اور آسٹن جنوبی کوریا جائیں گے اسکے بعد لائیڈ آسٹن کا اگلا پڑاﺅ بھارت میں ہو گا جہاں وہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے ڈیفنس پارٹنر شپ کو بڑھانے اور دونوں ممالک کے درمیان عسکری تعاون کو فروغ دینے پر بات چیت کریں گے لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ وہ بھارتی قیادت کیساتھ انڈو پیسیفک اور مغربی بحر ہند کو ایک آزاد‘ کھلا اور خوشحال علاقہ بنانے کے امکانات پر گفتگو کریں گے امریکی وزرا ءکی شٹل ڈپلومیسی سے پہلے صدر بائیڈن گذشتہ ہفتے ویکسین ڈپلومیسی کا آغاز کر چکے تھے جمعے کے دن جاپان‘ بھارت اور آسٹریلیا کے سربراہوں کیساتھ ایک Virtual Meeting میں انہوں نے کورونا وائرس ویکسین کی ایک اربDoses بنانے کا اعلان کیا اس کار خیر کیلئے امریکہ اور جاپان سرمایہ مہیا کریں گے یہ ویکسین بھارت میں دو سال کے عرصے میں تیار ہوگی اور اسکی تقسیم کی ذمہ داری آسٹریلیا پر ہو گی یہ ویکسین صرف جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو دی جائیگی چار ممالک کے اس Quad Summitکے بارے میں ایک امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ ویکسین ڈپلومیسی میں امریکہ ‘ چین روس اور انڈیا سے بہت پیچھے رہ گیا ہے امریکی میڈیا کہہ رہا ہے کہ چین نے درجنوں ممالک کو مفت ویکسین دیکر اپنے قد کاٹھ میں اضافہ کر لیا ہے اسلئے امریکہ کو اس میدان میں پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔ادھر یکم مئی کو افغانستان سے امریکی انخلاءکی ڈیڈ لائن قریب آنے کی وجہ سے واشنگٹن کے سفارتکاروں نے دوحہ‘ پاکستان اور افغانستان کے دورے شروع کر دئیے ہیں۔پاکستان میں بعض حلقوں کی رائے میں امریکہ نے یکم مئی کو افغانستان سے اپنی افواج واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ پندرہ مارچ کے نیویارک ٹائمز کی ایک خبر میں لکھا ہے کہ Biden Administration is wrestling with whether to follow through with the full withdrawal in the next seven weeksاسکا مطلب یہی ہے کہ امریکہ نے ابھی انخلا کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا اس خبر میں یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کی کل تعداد 2500 نہیںبلکہ 3500 ہے نیٹو ممالک کے سات ہزار فوجی اسکے علاوہ ہیںسترہ مارچ کو صدر بائیڈن نے ABC ٹیلیویژن کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ یکم مئی تک افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ” نہایت مشکل“ ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکی فوجی زیادہ عرصے تک افغانستان میں نہیں رہیں گے طالبان کہہ چکے ہیں کہ یکم مئی کے بعد ایک دن کی تاخیر بھی ان کیلئے ناقابل قبول ہو گی اٹھارہ مارچ کو ماسکو میں افغان امن کانفرنس ہو رہی ہے جسمیں پاکستان‘ چین اور طالبان کے علاوہ امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد بھی شرکت کریں گے اپریل کے مہینے امریکہ ترکی میں افغان کانفرنس منعقد کر رہا ہے زلمے خلیل زاد اگرچہ کہ دوحہ‘ پاکستان اور افغانستان میں شٹل ڈپلومیسی میں مصروف ہیںمگر انہیں ابھی تک طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی گذشتہ ہفتے کابل اور ہرات میں ہونیوالے حملوں کے نتیجے میں درجنوں افغان شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے ارد گرد حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں مگر اسلام آباد میںوفاقی وزرا ءاور اپوزیشن لیڈر بلا تکان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں تین مارچ کو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے سینیٹر منتخب ہونیکے بعد برپا ہونیوالے ہیجان خیز واقعات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے چھ مارچ کو وزیر اعظم عمران خان کے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد امید تھی کہ حالات نارمل ہو جائیں گے مگر بارہ مارچ کو چیئر مین سینٹ کے مقابلے میں کیونکہ یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد ہوئے ہیں اسلئے حزب اختلاف سخت بپھری ہوئی ہے پندرہ مارچ کو تین وفاقی وزرا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر کے الیکشن کمیشن کے تمام ممبران سے استعفے دینے کا مطالبہ کیا ہے انکے بیان کے مطابق الیکشن کمیشن اپنا اعتماد کھو چکا ہے اسلئے اسے مستعفی ہو جانا چاہئے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو اس اہم ادارے کو ختم کرنیکا اختیار حاصل نہیں ہے سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے کہا ہے کہ حکومت کے اس اعلان کے بعد ملک تیزی سے ایک آئینی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے لگتا ہے کہ حکومت کو اس بات کا ادراک نہیں کہ آس پاس کیا ہو رہا ہے اس کی ساری توجہ اپوزیشن کو منہ توڑ جواب دینے میں لگی ہوئی ہے چھبیس مارچ کو ہونیوالے لانگ مارچ کے التوا کے بعد امید ہے کہ حکومت ملک کے داخلی بحران کو ختم کرنے کی طرف توجہ دے گی۔