جمعرات کو الاسکا میں ہونیوالی دو روزہ کانفرنس سے چند روز پہلے امریکی اور چینی وزراءنے ایک دوسرے کے خلاف جو تند و تیز بیانات دئے انہیں پڑھنے کے بعد اس ملاقات سے اچھے نتائج کی توقع رکھنا ممکن نہ تھا منگل کو ٹوکیو میں سیکریٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے چین پر جو الزامات لگائے اور انکا بیجنگ نے جو سخت جواب دیا اسکے بعد لگتا تھا کہ یہ میٹنگ کینسل ہو جائے گی اتنی توتکار کے بعد آخر مل بیٹھنے کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے مگر اب سب کچھ ہو جانے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ میٹنگ اسلئے ہوئی کہ میدان چھوڑ دینے کی تہمت کوئی بھی اپنے سر لینا نہ چاہتا تھااور شاید یہ بھی کہ جو کسررہ گئی تھی اسے پور ا کرنیکا ایک اور موقع بھی فریقین کھونا نہ چاہتے تھے لہٰذا اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا گیا مگر اس تکرار وتصادم کے باوجود کچھ اچھی باتیں بھی ہوئیں جو اگر چہ کہ آٹے میں نمک کے برابر تھیں مگر انہیں غیر اہم نہیں کہا جا سکتا ۔
انٹونی بلنکن نے ابتدائی کلمات ہی میں چین کے خلاف الزامات کی ایک طویل فہرست پڑھ کر سنادی اسمیں ہانگ کانگ‘ تبت اور سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شامل تھیں اسکے علاوہ انڈیااور تائیوان کے خلاف چین کے جارحانہ اقدامات کا ذکر بھی تھا انٹونی بلنکن نے دو منٹ کی اس تقریر میں جنوبی چین کے سمندرمیں بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذکر بھی کیا انکے بعد Yang Jiechi جو چین کی کمیونسٹ پارٹی کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے سربراہ ہیںنے پندرہ منٹ تک دل کھول کر امریکہ کی خبر لی طے شدہ پروٹوکول کے مطابق انہوں نے بھی صرف دو منٹ کے ابتدائی کلمات پر اکتفا کرنا تھا مگر انہوں نے دل کا غبار نکالنے کیلئے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایادو ماہ پہلے صدر بائیڈن کے حلف اٹھانے کے بعد سے اب تک دونوں ممالک میں جو کشیدگی پائی جاتی تھی اسکے تناظر میںبہ زبان شاعر کہا جا سکتا ہے کہ
یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
اس سانحے یا کانفرنس کے آغاز میںآدھے گھنٹے کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق جب صحافی جانے لگے تو پہلے چینی اور پھر امریکی سفارتکاروں نے انہیں روک لیاا امریکی اخبارات کے مطابق فریقین اپنے عوام تک یہ خبر پہنچانا چاہتے تھے کہ انہوں نے خم ٹھونک کر حریف کے دانت کھٹے کئے ہیںلیکن پھر نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر Jake Sullivan نے دوسرے روز میٹنگ کے اختتام پر کہاکہ پہلے دن اخبار نویسوں کے جانے کے بعد معمول کی کاروائی شروع ہو گئی اور ایجنڈے پر جتنے بھی نکات تھے ان پر سیر حاصل گفتگو ہوئی گویا میڈیا کے سامنے آستینیں چڑھانے والے کیمروں کے جانے کے بعد سنجیدگی سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے لگے لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ ” آئینے میں بال آ چکا اب مفاہمت ہو کر بھی نہیں ہو گی“ اس دشنام طرازی کو آئینے میں بال نہیں کہا جا سکتا یہ تو گیسوئے یار کا سلسلہ دراز تھا جو تخیل کی سرحدوں سے آگے تک پھیلا ہوا تھا امریکی اخبارات کے انٹر نیٹ ایڈیشنوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ میڈیا کے روپوش ہونیکے بعد فریقین نے اختلافات کو دلائل کیساتھ پیش کیا اس فکر انگیز مکالمے کی تہہ میں جھانکنے سے پہلے دواخبارات کی سرخیاں دیکھتے ہیں جو اس کانفرنس پر جمائی گئی ہیں جمعے کے دن وال سٹریٹ جنرل کی سرخی تھیBitter Alaska meeting complicates already shaky U.S China ties" یعنی الاسکا کی تلخ میٹنگ نے پہلے سے کشیدہ امریکہ چین تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا‘ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے Stunning public exchange shows U.S and China relations are getting worse یعنی حیران کن اور کھلے طور پر ہونیوالے جھگڑے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ چین تعلقات بد تر ہو رہے ہیںاس تناﺅ کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ چین اب امریکہ کیلئے عالمی قیادت کا میدان کھلا چھوڑنا نہیں چاہتاوہ ہر خطے بلکہ ہر ملک میں امریکہ کو چیلنج کرنا چاہتا ہے چار سال تک ڈونلڈ ٹرمپ نے America First کی پالیسی کے تحت عالمی معاملات سے کنارہ کشی اختیار کئے رکھی اب جو بائیڈن اسی مقام پر فوراّّ واپس آنا چاہتے ہیں جہاں پر چار سال پہلے براک اوباما کی صدارت میں امریکہ کھڑا تھا الاسکا کی میٹنگ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب ایسا نہیں ہو سکتا امریکہ کو اپنا کھویا ہوا مقام اتنی آسانی سے واپس نہیں مل سکتا گاڑی چھوٹ چکی ہے چین نے ایشیا اور افریقہ کے ممالک کے علاوہ یورپ کیساتھ بھی معاشی اور سیاسی معاملات میں خاصی پیشرفت کر لی ہے امریکہ کے یورپی اتحادی اور کینیڈا‘ آسٹریلیا اور جاپان بھی اسکے ساتھ کھڑے ہیں مگر پہلے کی طرح نہیں وہ واشنگٹن کے کہنے پر چین کیساتھ دشمنی مول لینے کو تیار نہیں ایک امریکی مبصر کی رائے میں Now America will have to bring a lot to the table یعنی اب امریکہ کو اپنے اتحادیوں کو بہت کچھ دینا پڑیگاصرف باتوں سے کام نہیںچلے گااس لین دین کیلئے کچھ وقت چاہیئے مگر بائیڈن انتظامیہ فوراً ا چھا جانا چاہتی ہے اور ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا الاسکا کانفرنس میں انٹونی بلنکن نے چین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ امریکہ ایک Rule based global international order چاہتا ہے یعنی قواعد وضوابط پر مبنی ایسا عالمی نظام جس پر سب کاربند ہوں اس نظام کی وضاحت کرتے ہوے بلنکن نے کہا کہ چین کو سنکیانگ‘ تبت اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بند کرنا ہوگی اسکے جواب میں یانگ جائے چی نے کہا کہ امریکہ میں جس بیدردی کیساتھ سیاہ فام لوگوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے اسکے بعد امریکہ جب انسانی حقوق کی بات کرتا ہے تو وہ ایک منافق نظر آتا ہے ےانگ نے یہ بھی کہاکہ امریکہ انسانی حقوق کا طبل بجا کر ہر ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کا حق حاصل کرنا چاہتا ہے یانگ نے تنبیہ کی کہ امریکہ نے اگر چین کی سا لمیت اور خود مختاری پرحملہ کیا تو اسے سخت جواب دیا جائیگا اانٹونی بلنکن نے اصول و ضوابط سے مبرا عالمی نظام کی وضاحت کرتے ہوے کہا کہ Without a rule based order it would be a far more violent and unstable world یعنی کہ قواعد و ضوابط کے بغیر دنیا زیادہ پرتشدد اور غیر مستحکم ہو گی اس بے قابو اور پر تشدد دنیا کی ایک مثال اسوقت ہمارے سامنے آئی جب نریندرا مودی نے بڑی ڈھٹائی کیساتھ اگست 2019میںبزور شمشیرکشمیر کی آزادانہ حیثیت ختم کرکے اسے انڈیا میں شامل کر لیا اب سیکرٹری آف ڈیفنس لائیڈ آسٹن نے انڈیا کے دورے میں اپنے ہم منصب راج ناتھ کو اقلیتوں کیساتھ بہتر سلوک کی تلقین کی ہے حالیہ پاکستان انڈیا سیز فائر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے لیکن چین پاکستان اور انڈیا کی طرح امریکہ کا حکم ماننے پر آمادہ نہیں وہ واشنگٹن سے اس سلوک کی توقع رکھتا ہے جو بادشاہ بادشاہوں سے کرتے ہیںمگر امریکہ دنیا پر کھوئی ہوئی اجارہ داری دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے ‘ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی کے مصداق وہ ایک مرتبہ پھر دنیا پر بلا شرکت غیرے حکومت کے خواب دیکھ رہاہے مگر دنیا بدل چکی ہے لگتا ہے کہ بائیڈن اور بلنکن کو یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔