فاصلہ اور قربت۔۔۔

بہاولپور میں ایک سکول ٹیچر حبیب اللہ صاحب تھے‘ وہاں ایک کرم الٰہی صاحب بھی تھے وہ بھی استاد تھے‘ وہ ایک ساتھ کافی عرصہ اکٹھے پڑھاتے رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد جدا ہوگئے‘ ان میں بڑا پیار تھا‘ کرم الٰہی صاحب لاہور آگئے جبکہ حبیب اللہ صاحب بہاولپور میں ہی رہے‘ وہ وہاں اپنا کام کرنے کے بعد رات کو بس پکڑ کر ساہیوال پہنچ گئے‘ ساہیوال بس سٹینڈ سے یکہ لے کر کرم الٰہی صاحب کے گاﺅں چک گ‘ ب یا ای‘ بی جو بھی تھا وہاں چلے گئے وہ اپنے یار قدیم کے گھر پر دستک دی‘ حبیب اللہ صاحب کہنے لگے کہ میں چائے تو لاری اڈے سے ہی پی آیا ہوں‘ چلیں اکٹھے چل کے نماز پڑھتے ہیں‘ (اس وقت فجر کی اذان ہورہی تھی) انہوں نے کہا کہ ملتان آیا ہوں ساہیوال قریب ہی ہے چلو کرم الٰہی سے مل آتا ہوں‘ خواتین و حضرات بہاولپور سے ملتان اتنا سفر نہیں ہے جتنا ملتان سے ساہیوال ہے لیکن وہ اس سفر کو ”قریب ہی“ کا نام دے رہے تھے‘ انہوں نے اپنے یار عزیز سے کہا کہ تم سے ملنا تھا مل لیا‘ تمہیں دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی اور اکٹھے فجر پڑھ لی اور اب میں چلتا ہوں‘ کرم الٰہی صاحب نے بھی کہا کہ بسم اللہ آپ کے دیدار سے دل خوش ہوگیا‘ جوں جوں انسان کے درمیان فاصلے ہوتے جارہے ہیں اور نظر نہ آنے والی دراڑیں پڑتی جاتی ہیں‘ انسان بیچارہ ان فاصلوں کو پیسوں کی کمی سے جوڑ رہا ہے اور اس نے سارا زور معاشی پوزیشن بہتر کرنے پر لگا رکھا ہے‘ میں سوچتا ہوں کہ اگر معاشی صورتحال اچھی ہوگئی اور انسانوں کا منہ ایک دوسرے کے مخالف رہا تو پھر ان پیسوں‘ ڈالروں کا آخر کیا فائدہ ہوگا؟ اس لئے ہمیں اپنے اپنے طور پر سوچنا پڑے گا کہ چاہے ایک دوسرے سے لڑائی ہوتی رہے لیکن وچھوڑا تو نہ ہو۔ میری ایک نواسی ہے اور اس کا بیٹا کوئی اڑھائی تین برس کا ہو گا مےںاس سے ملنے ساہیوال گیا ‘میری نواسی کا بچہ باہر کوٹھی کے لان میں کھیل رہا تھا ۔ مجھے اس کا علم نہیں تھا کہ وہ باہر کھیل رہا ہے ‘میں اپنی نواسی سے باتیں کرتا رہا ‘ اچانک دروازہ کھلا اور وہ بچہ مٹی میں لتھڑے ہوئے ہاتھوں اور کپڑوں پر کیچڑ لگی ہوئی تھی ‘ وہ اندر آیا اور اس نے دونوں باز و محبت سے اوپر اٹھا کر کہا ‘ امی مجھے ایک ”جپھی“ اور ڈالیں ۔ پہلی ”جپھی“ ختم ہو گئی ہے تو میری نواسی نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگالیا باوصف اس کے کہ وہ بچہ باہر کھیلتا رہا اور اس کے اندر وہ گرماہٹ اور حدت موجود رہی ہو گی جو اس سے ایک ”جپھی“ نے عطا کی ہو گی اور جب اس نے محسوس کی کہ مجھے اپنی بیٹری کوری چارج کرنے کی ضرورت ہے تو وہ جھٹ سے اندر آ گیا۔فرانس کا ایک بہت بڑا رائٹر جسے میں دل و جان سے پسند کرتا ہوں وہ تقریباً تیس پینتیس برس تک فرانس سے غیر حاضر رہا اور جب وہ اس طویل غیر حاضری کے بعد لوٹ کر اپنے وطن آیا اور سیدھا اپنے اس محبوب گاﺅں پہنچا جہاں اس کا بچپن گزرا تھا ۔ رائٹر کفسو کہتا ہے کہ جب وہ اپنے گاﺅں پہنچا تو اس پر ایک عجیب طرح کی کیفیت طاری ہو گئی اور مجھے وہ سب چیزیں یاد آنے لگیں جو بچپن میں میں نے یہاں دیکھی تھیں لیکن ان کا نقشہ اس قدر واضح نہیں تھاجیسا کہ ان کا نقشہ اس وقت واضح تھا ۔جب وہ چیزیں میرے قریب سے گزرتی تھیں اور میرے پاس تھیں ‘ کفسو کہتا ہے کہ ایک عجیب واقعہ اسے یاد آیا کہ ایک ندی کی چھوٹی سی پلی پر سے جب وہ گزرا کرتا تھا تو اس کے داہنے ہاتھ پتھروں کی ایک دیوار تھی جس پر غیر ارادی طور پر میں اپنی انگلیاں اور ہاتھ لگاتا ہوتا چلتا جا تا تھا اور وہ آٹھ دس فٹ لمبی دیوار میرے ہاتھ کے لمس اور میں اس کے لمس کو محسوس کرتا رہا ۔ وہ کہنے لگا کہ میرا جی چاہا کہ میں اس پلی پر سے پھر سے گزروں اور اپنے بچن کی یاد کو ویسے ہی تازہ کروں۔
(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)