1953ءمیں پہلی مرتبہ انگلستان گیا میرے لندن میں بڑے پیارے دوست تھے جن سے ملے ہوئے مجھے ایک عرصہ ہوگیا تھا جن میں جاوید’ اعجاز‘ الیاس گرنجش اور جگجیت سنگھ وغیرہ شامل تھے‘یہ سارے لوگ بی بی سی میں بھی کام کرتے تھے اور انہوں نے اپنی پڑھائی بھی جاری رکھی ہوئی تھی اس وقت بی بی سی کا ٹی ہاﺅس ایک ایسی جگہ تھی جہاں ہم سارے اکٹھے ہوتے تھے اور گپیں ہانکتے تھے وہاں پر ہمارا جو دوست الیاس تھا وہ بڑا خاموش طبع آدمی تھا وہ سدھانیہ سے پاکستان اور پھر یہاں سے انگلستان چلا گیا تھا اسے بائیں کان سے سنائی نہےں دیتا تھا لاہور میں اس نے آپریشن بھی کروایا مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ وہ کہتا ہے کہ ایک دن شام کے وقت آرہا تھا اور مجھے سینٹ جونز ووڈسٹریٹ سے ہوکر البرٹ روڈ پرجانا تھا البرٹ روڈ کراس کرکے پھر مےں ریمنز پارک جانا تھا میں چپس کھاتا جارہا تھا اور سڑک سنسان تھی‘ ایک گلی کے درمیان جب پہنچا تو ایک لمبے تڑنگے امریکن سیاح نے مجھ سے کہا کہ Do you know the hide park?اور میں نے اس سے پتہ نہےں کیوں کہہ دیا کہ Yes i know but i do not tell you کیونکہ اس طرح کا جواب دینے کا کوئی ’ تک ‘نہےں تھا اس نے ’کھبے‘(بائیں) ہاتھ کا ایک گھونسا میری کنپٹی پہ مارا اور میں گھنٹوں کے بل زمین پر گرگیا جب میں گھنٹوں کے بل گرگیا تو میں نے سراٹھا کر اس سے کہاThank you very muchاور اس امریکی نے برجستہ کہا you are well come الیاس نے کہا کہ میں اس کے یہ الفاظ تو سن سکا پھر بے ہوش ہوگیا اور وہےں پڑا رہاتھوڑی دیر کے بعد مجھے ہوش آیا تو مجھے شرمندگی اس بات پر تھی کہ میں نے اسے ’تھینک یو‘ کیوں کہا‘ مجھے چاہئے تھا کہ اسے جواباً مارتا یا پھر نہ مارتا الیاس اب دوستوں کے تنگ کرنے پر جواز یہ پیش کررہا تھا کہ غالباً اسکا جوگھونسا تھا وہ میری کنپٹی کے ایسے مقام پر لگا تھا جہاں سے شریانیں دماغ کے ا س حصے میں جاتی ہےں۔ الیاس نے مزید بتایا کہ اگلے دن جب وہ صبح سویرے اٹھا (میرے پاس ایک الارم تھا جو جب چلتا تھا تو اس کےساتھ بی بی سی ریڈیو کی نشریات چلنا شروع ہو جاتی تھےں)اور جب الارم کےساتھ ریڈیو چلا تو میں حیران رہ گیا کہ اس کی آواز کچھ عجیب سی تھی چنانچہ جب میں نے اپنے دائیں کان میں انگلی ڈال کے بند کیا تو میرا بایاں کان ڈن ڈناڈن کام کررہاتھا میں پھر چیخ مار کے باہر نکلا اوراپنے دوست سے لپٹ گیا اور خوشی سے کہا کہ میں اب سن سکتا ہوں۔ (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)