میانداد کا چھکا۔۔۔

آپ کو یاد ہوگا جب شارجہ میں میانداد نے چھکا لگایا تھا میں شادمان کے علاقے میں جارہا تھا کہ میری گاڑی میں خرابی پیدا ہو گئی میں نے نیچے اتر کر دیکھا تو اس کو ٹھیک کرنا میرے بس کی بات نہےں تھی ایک خاتون گھر سے باہر آئےں انہوں آکر دیکھا اور پھر کہا کہ یہ آپ سے ٹھیک نہےں ہوگی میںنے اس سے کہا کہ میں کہےں جلدی جانا چاہتا ہوں‘اس نے کہا کہ آپ گاڑی کو یہاں چھوڑ دیں میرا بیٹا آٹو انجینئر ہے وہ اسے دیکھ لے گا میں بلاتی ہوں‘ اس لڑکے نے آکرکہا کہ انکل آپ جاکر اندر بیٹھیں میں دیکھتا ہوں اور وہ کام کرنے لگا‘میں انکے گھر میں جاکر بیٹھ گیا وہاں ٹی وی لگا ہوا تھا اس دوران میں میانداد آیا اس نے چھکا لگایا اور پاکستان جیت گیا‘اسوقت پوری قوم ٹی وی اور ریڈیو سے چمٹی ہوئی تھی اس لڑکے کی ماں نے مجھے آکر کہا کہ گاڑی ٹھیک ہوگئی میں نے اس لڑکے سے آکر کہا کہ یار تم نے میچ نہےں دیکھاوہ کہنے لگا کوئی بات نہےں آپ نے دیکھ لیا تو میں نے دیکھ لیا آپ کی دقت ختم ہوگئی‘ خواتین وحضرات! اس نے یہ چھوٹی سی بات کہہ کر مجھے خریدلیا بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن اس نے مجھے ایسی چیز عطا کی جسکا میں آج تک دینے دار ہوں‘ہم اپنی والدہ کو ’پھر نتو‘کہتے تھے وہ آزاد منش خاتون تھےں اور عموماً اپنے کمرے میں نہےں رہتی تھےں بس ادھر پھرتی رہتی تھےں اتنی پڑھی لکھی بھی نہےں تھےں جب بھی دیکھےں کمرے کا چکر لگا کے باورچی خانے میں پہنچی ہوتیں انہےں جہاں بھی چھوڑ کر آتے تھوڑی دیر کے بعد وہ کچن میں ’کڑھم‘ کرکے موجود ہوتیں ایک باردوپہر کے وقت وہ باورچی خانے میں کھڑی تھےں اور سب سوئے ہوئے تھے میں نے پوچھا جی کیا کررہی ہےں تو وہ کہنے لگیں کہ بندر والا مداری آیا تھا وہ بھوکا تھا اس کےلئے پکوڑے تل رہی ہوں میری اماں کا سارا سینٹر باورچی خانہ تھا وہ بھی کہتیں کہ میری زندگی کا مرکز ہی یہ ہے اور مجھے لوگوں کو کچھ عطا کرکے خوشی ہوتی ہے‘ اس زمانے کی شاید ساری عورتیں اس نظریے کی قائل تھےں اگر آپ اپنی زندگی کو کبھی غور سے دیکھےں اور چھوٹی چمٹی کےساتھ زندگی کے واقعات چنتے رہےں تو آپ کو بے شمار چیزیں ایسی نظر آئیں گی جو ایسے ہی آپکی نگاہ سے اوجھل ہوگئی ہےں لیکن وہ بڑی قیمتی چیزیں ہےں خیر اگلی میں میرا ایک چھوٹاسا گھر تھا اسکے دو کمرے تھے ہم کبھی کبھی وہاں جاتے تھے جب کبھی وہاں جاتے تو آتے وقت اسکی دیکھ بھال غلام قادر کو سونپ دیتے وہ وہاں ڈاکخانے میں ملازم بھی تھا میری بیوی نے چابیاں دیتے ہوئے اسے کہا کہ ’غلام قادر سردیاں آنے سے پہلے یا سردیاں آنے کے بعد چیزیں گھر سے باہر نکال کر انہےں دھوپ لگا لینا اس نے کہاکہ ’بہت اچھا جی۔‘ غلام قادرنے وہ چابی لےکر ایک دوسری چابی بانو قدسیہ کو دےدی تو اس نے کہایہ کیا ہے وہ کہنے لگا کہ جی یہ میرے گھر کی چابی ہے جب آپ نے اپنے گھر کی چابی مجھے دی ہے تو میرا افرض بنتا ہے کہ میں اپنے گھر کی چابی آپ کو دےدوں کوئی فرق نہ رہے آپ مجھ پر اعتماد کریں اور میں نہ کروں یہ کیسے ممکن ہے میری بیوی اس کی بات سن کر حیران رہ گئی۔
(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)