ماں باپ کی شفقت۔۔۔

ماں خدا کی نعمت ہے اور اسکے پیار کا انداز سب سے الگ اور نرالا ہوتاہے بچپن میں ایک بار بادوباراں کا سخت طوفان تھا اور جب اس میں بجلی شدت کے ساتھ کڑکی تو میں خوفزدہ ہوگیا ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا میری ماں نے میرے اوپر کمبل ڈالا اور مجھے گود میں بٹھالیا ‘تو محسوس ہوا گویا میں امان میں آگیا ہوں‘ میں ماں کے سینے کےساتھ لگ کر سوگیا پھر مجھے پتا نہےں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رہی ‘ یا نہےں یہ ایک بالکل چھوٹا ساو اقعہ ہے اور اسکے اندر پوری دنیا پوشیدہ ہے یہ ماں کا فعل تھا جو ایک چھوٹے سے بچے کےلئے ‘جو خوفزدہ ہوگیا ہے میں جب نوسال کا ہوا تو میرے دل میں ایک عجیب خیال پیدا ہوا کہ سرکس میں بھرتی ہوجاﺅں اور کھیل پیش کروں‘کیونکہ ہمارے قصبے میں ایک بہت بڑا میلا لگتا تھا تیرہ‘ چودہ‘ پندرہ جنوری کو اور اس میں بڑے بڑے سرکس والے آتے تھے‘ مجھے وہ سرکس دیکھنے کا موقع ملاجس سے میں بہت متاثر ہوا جب میں نے اپنے گھر میں اپنی یہ خواہش بیان کی کہ میں سرکس میں اپنے کمالات دکھاﺅں گا تو میری نانی ’پھا‘ کرکے ہنسی اور کہنے لگیں‘ ذرا شکل تو دیکھو! یہ سرکس میں کام کریگا میری ماں نے بھی کہا ‘دفع کرتو بڑا ہو کر ڈپٹی کمشنر بنے گا تو نے سرکس میں بھرتی ہوکرکیا کرنا ہے اس پر میرا دل بڑا بجھ سا گیا میرے والد سن رہے تھے انہوں نے کہا کہ نہےں ‘کیوں نہےں؟ اگر اسکی صلاحیت ہے تو اسے بالکل سرکس میں ہونا چاہئے تب میں بہت خوش ہوا‘انہوں نے صرف مجھے اجازت ہی نہےں دی بلکہ ایک ڈرم جو ہوتا ہے تارکول کا اس کو لال ‘نیلا اور پیلا پینٹ کرکے بھی لے آئے اور کہنے لگے اس پر چڑھ کر آپ ڈرم کو آگے پیچھے رول کیا کریں اس پر آپ کھیل کرینگے تو سرکس کے جانباز کھلاڑی بن سکیں گے میں نے کہا منظور ہے چنانچہ میں اس ڈرم پر پریکٹس کرتا رہا میں نے اس پراس قدر اور اچھی پریکٹس کی کہ میں اس ڈرم کو اپنی مرضی اور منشاءکے مطابق کہےں بھی لے جا سکتا تھا پھر میں نے اس ڈرم کے اوپر چڑھ کر ہاتھ میں تین گیندیں ہوا میں اچھا لنے کی پریکٹس کی وہاں میرا ایک دوست تھا‘محمد رمضان اس کو بھی میں نے پریکٹس میں شامل کرلیا وہ اچھے چھریرے بدن کا تھا وہ مجھ سے بھی بہتر کام کرنے لگا بجائے گیندوں کے وہ تین چھریاں لےکر ہوا میں اچھال سکتا تھا ہم دونوں ڈرم پر چڑھ کر اپنا یہ سرکس لگاتے ایک ہماری بکری تھی اس کو بھی میں نے ٹرینڈ کیا وہ بکری بھی ڈرم پر آسانی سے چڑھ جاتی ہم ےہ سرکس کرتے اور مےرے اباجی اےک روپے کا ٹکٹ خرےد کرتماشا دےکھتے ہمارا اےک ہی تماشائی ہوتا تھا ۔ (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)