فاصلے۔۔۔۔

ایک دوسرے سے بے خبری میری بھانجی کی ایک بیٹی ہے جسے پیارسے ببلی کہتے ہیں وہ ساہیوال میں رہتی ہے میری دوسری بھانجی کی بیٹی ٹینا اور ببلی بڑی گہری سہےلیاں ہیں ‘وہ ہم عمر ہیں ‘ ٹینا لاہور میں رہتی ہے ‘ کبھی کبھی کسی بیاہ شادی کے موقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساہیوال جانا پڑتا ہے اس طرح ٹینا ایک بار جب ساہیوال گئی تو وہ دونوںبچیاںرات کو بھی ساتھ ساتھ تھیں کہ آدھی رات کے وقت ٹینا کے رونے کی آواز آئی‘ ببلی کی ماں نے اس سے پوچھا کہ ٹینا کیا بات ہے۔ ٹینا روتے ہوئے کہنے لگی کہ ببلی مجھے مونگ پھلی نہیں دیتی ‘ اسکی ماں نے کہاکہ ببلی کے پاس تو مونگ پھلی نہیں ہے۔ تو وہ روتے ہوئے کہنے لگی کہ خالہ یہ کہتی ہے کہ جب بھی میرے پاس مونگ پھلی ہوئی میں تمہیں نہیں دوںگی‘ وہ رو رہی تھی لیکن ببلی الگ نہیں ہورہی تھی کیونکہ نہ ہونے کے تعلق کو بھی انسان کھینچ کے اپنی ذات کےساتھ شامل کرلیتا ہے لیکن اب بدقسمتی سے ہم نے تعلق کا باعث ڈھیر ساری دولت کو سمجھنا شروع کردیا ہے یہ جو خاندانی نظام آہستہ آہستہ ٹوٹ رہے ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے بے خبر ‘ بے سدھ زندگی گزارنے کو ترجیح دے رہے ہیں اسکی وجہ روپے پیسے کی بہتات ہے‘اس پیسے نے نزدیکی کی بجائے دوریاں پیدا کردی ہیں ‘ جب میری آپا زبیدہ حیات تھیں تو جہلم میں انکے پاس ایک ٹی وی سیٹ تھا‘ انکے گھر ایک ادھیڑ عمر شخص پیچ کس پلاس لے کر ان کا ٹی وی ٹھیک کررہا تھا ‘وہ روز ٹی وی ٹھیک کرنے آتا‘ صبح صبح آجاتا‘ دوپہر اور شام کا کھانا کھا کر چلا جاتا‘ میں بھی وہاں ٹھہرا ہوا تھا میں دو تین چار دن تک دیکھتا رہا اور میں نے دیکھا کہ ساتویں دن وہ ایک نئی ٹیوب لے کر آیا اس نے کہاکہ آپا جی اس ٹیلیویژن کی ٹیوب خراب ہوگئی ہے اسے یہ لگانے آیا ہوں۔ انہوں نے بھی کہا کہ ٹھیک ہے لگادو‘ اس نے وہ ٹیوب لگا دی تو وہ بلیک اینڈ وائٹ ٹیلیویژن چلنے لگا ‘ جب وہ چلا گیا تو میں نے آپا زبیدہ سے کہا کہ آپا یہ جو سات دن کوشش میں رہا اور آپ نے اسے کوشش کرنے دی اور اگر اس کی ٹیوب ہی بدلنی تھی تو پہلے دن ہی بدل دی ہوتی‘ وہ کہنے لگی کہ نہیں اگر ایسا ہوجاتا تو پھر بے چارہ اتنے دن کس سے ملتا۔ اس کا بھی اتنے دن دل لگارہا اور ہمارے گھر میں بھی رونق لگی رہی ہے۔ خواتین و حضرات ! اب بندہ بندے سے ملنا پسند نہیں کرتا ہے ‘ اس کا وہ پہلے سا رشتہ نہیں رہا ہے اور اب یہ تعلق اور رشتے ایک خواب بن چکے ہیں‘اس کا سدباب ابھی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ (اشفاق احمد کے نشرپروگرام سے اقتباس)