خواتین وحضرات اگر آپ مجھ سے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوچھیں تو میں آپ کو بتاﺅں گا کہ جب میں سیکنڈ ایئر میں تھا تو لاہور میں جو لوگ لاہور کو جانتے ہےں انہےں پتہ ہے کہ نسبت روڈ اور میکلوڈروڈ کو ایک چھوٹی سی سڑک ملاتی ہے اور وہ سڑک بالکل دیال سنگھ کالج کے سامنے ہے دیال سنگھ کالج کے پاس ایک حلوائی کی دکان ہوتی تھی جو سموسے بیچتا تھا تب اس کے سموسے پورے لاہور کے مہنگے ترین ہوتے تھے اور وہ تین آنے کا ایک سموسہ بیچتا تھا اس کے سموسوں کی خوبی یہ تھی کہ ان میں آلو کی بجائے مٹر کے سرسبز دانے ہوتے تھے یہ قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے اس کے بعد کسی نے اس طرح کے مٹر کے سموسے بنائے ہی نہےں ہےں شاید ہم سب دوستوں کی بڑی آرزو ہوتی تھی کہ ایک عدد سموسہ ایک دن میں ضرور کھایا جانا چاہےے اور ہماری بدقسمتی یہ ہوتی تھی کہ میری ماں مجھے کالج جانے کے لئے دوآنے دیتی تھی اب دو آنے میں ایک آنہ ملانا خاصا مشکل کام تھا ہم تین آنے اکٹھے کرنے کے چکر میں پڑے رہتے تھے اور وہ ایک سموسہ کھاتے بھی دوستوں سے نظر بچا کے تھے کیونکہ جو دوست دیکھ لیتا وہ تو پھر حصے دار بن جاتا تھا ہم اس تین آنے میں میسر آنے والی عیاشی سے بڑے لطف اندوز ہوتے تھے اور آج ساٹھ برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم یاد کرتے ہےں کہ عیاشی کے جو لمحے تھے وہ تھے اور میری افسانہ نگاری‘ ناموری اور ڈرامہ نگاری کے لمحات کے مقابلے میں کچھ بھی نہےں ہےں اگر کالج کی زندگی سے بھی ذرا پیچھے جاﺅں تو اور خوشی کے لمحات آتے ہےں ابھی کل ہی میری پوتیاں پوتے مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ دادا ‘نانا آپ کی زندگی کا سب سے خوبصورت دن کونسا ہے میں انہےں بتا رہا تھا کہ میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا اور میں تب خوش خط تختی لکھا کرتا تھا اور مجھے کبھی کبھی اس خوش خطی پر ایک یا دوپیسہ انعام بھی ملتا تھا اور تب بھی اتوار کی چھٹی ہوتی تھی ایک دن میں خوش خط لکھی تختی لے کر جب سکول جانے لگا تو میری ماں نے مجھے خوشخبری دی کہ ’اشفاق مرغی کے چوزے نکل آئے ہےں پیارے بچوآپ اندازہ نہےں لگا سکتے اس وقت میرے دکھ اور میری مایوسی کا کیونکہ چوزے نکل آئے تھے اور میں سکول جارہا تھا میں نے رنجیدہ ہوکر کہا’ماں تو نے کہا تھا کہ اتوار کو نکلیں گے آج تو ہفتہ ہے میری ماں نے مجھ سے کہا کہ بیٹے جب چوزے نکل آتے ہےں تو ہفتہ بھی اتوار ہوجاتا ہے تیرے لئے بھی آج اتوار ہی ہے تختی بستہ رکھ دے ‘سکول نہےں جانا وہ دن آج تک میری زندگی کا خوبصورت دن ہے اور مجھے یاد ہے کہ وہ ہفتہ کیسے اتوار بن گیا اور وہ سارا دن میں نے کتنی خوشی کی لہر میں گزارا میں اسے باوصف اس لئے نہےں بھول سکتا کہ مجھے زندگی میں بڑی کامیابیاں ملیں میرے لئے بڑے باجے بجے ‘بڑے کمرے سجائے گئے لیکن اس خوشی کا میں آپ کو ترجمہ کرکے نہےں بتا سکتا اس کی ترجمانی نہےں کرسکتا ہمیں ایسی خوشیوں کی طرف رجوع کرنے کی بڑی سخت ضرورت ہے۔
(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)