وہ دن دور نہیں۔۔۔

اس مادی زندگی میں جس میں بار بار آپکے دوست و احباب‘ عزیز و اقارب مادہ پرستی کی بات کرتے ہیں کہ جی پاکستان میں لوگ بہت مادہ پرست ہوگئے ہیں‘لوگوں میں پہلی سی محبت‘پیار اور یگانگت نہیں رہی‘ مادہ پرستی کا کھیل صرف پاکستان میں ہی نہیں چلاہے بلکہ ساری کی ساری دنیا اس وقت مادہ پرستی کے چکر میں ہے‘میں ایک ایسے علاقے میں رہا ہوں اور ایسی جگہ جنما پلا ہوں جہاں سانپ بہت ہوتے تھے اور کلر کے سانپ بکثرت پائے جاتے تھے‘ہم بچپن میں جنگل میں جاکر یا ویران اور گرے پڑے گھروں میں سانپوں کی کینچلیاں اکٹھی کرتے تھے‘ کیا آپکو سانپوںکی کینچلیوں کا پتہ ہے؟ سانپ ایک خاص وقت پر سو جاتا ہے اور اس کے جسم کے اوپر ایک پلاسٹک کے شاپر بیگ کی طرح کی باریک کھال یا کینچلی چڑھ آتی ہے اور اس کینچلی کے اندر رہ کر Hibernate کرتا ہے‘ تب نہ وہ سانس لیتا ہے‘ نہ کھانا کھاتا ہے‘ بالکل مردہ یا سدھ بدھ ہو کے پڑارہتاہے‘میں اس Economic world میں جب بھی کینچلی دیکھتا ہوں تو میں غور کرتاہوں کہ ہم سانپ ہیں جو Economics یا پیسے کی دوڑ کے اندر اپنے بدن پر کینچلی چڑھا کے خاموش پڑے ہوئے ہیں‘ ہم بے حس و حرکت ہیں اور ہمارا کوئی بس نہیں چلتا۔ ہمیں Consumer Goods بنانےوالی کمپنیاں جس طرح چاہتی ہیں استعمال کرتی ہیں اور کرتی چلی آرہی ہیں۔ خواتین و حضرات جس بات سے آپ خوفزدہ ہیں زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گی کیونکہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب سانپ کو اپنی Growth کےلئے اس کینچلی کے اندر سے نکلنا پڑتا ہے اور وہ کمال سے اور بڑی عجیب و غریب حرکات و سکنات کرکے اپنے بدن کو پرانی ٹوٹی دیواروں سے رگڑ رگڑ اورگھسا گھسا کے باہر نکلتا ہے اور اپنی وہ کینچلی پیچھے چھوڑ جاتا ہے‘ جب وہ باہر نکلتا ہے تو وہ زندگی میں اور زندگی کے دوسرے جانوروں کےساتھ شامل ہوتا ہے۔ سانپ جس طرح اپنی نشوونما کےلئے ایک خاص وقت پر اس خول میں سے نکلتا ہے اور باہر آکر زندگی میں شامل ہوتاہے اور نئے انداز و ڈھنگ اورنئے سرے سے سانس لیتا ہے اسی طرح ہی انسانوں کی یہ ساری بستیاں جو مجموعی طورپر اس وقت اپنی Economics کی کینچلی کے اندرلپٹی پڑی ہیں۔ ان کو اپنی گروتھ کیلئے باہر نکلنا ہی پڑے گا اور یہ نکل کے ہی رہیں گی۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)