معروف صحافی رضا علی عابدی ایک سینما گھر کی ٹکٹ کےلئے بنی کھڑکی کے سامنے لگی قطار اوراس میں موجود لوگوں سے متعلق ایک دلکش منظر کشی میں لکھتے ہےں کہ وہ ایک طویل قطار دیکھ کرٹھٹھک گئے‘اتنی لمبی قطار؟ یہ اتنے بہت سے لوگ کہاں سے آگئے ؟ کیوں آگئے ؟ کیا ان سب کو آج ہی آنا تھا ؟ کیا آنے کےلئے کوئی اور دن نہےں بچا تھا ؟ کیا انہےں اتنی بڑی دنیا میں کوئی اور کام نہےں تھا ؟ میں یہ سوچتا گیا اور قطار کے آخری سرے پر جاکر کھڑا ہوگیا وہ جو ٹکٹ گھر کی کھڑکی سے لگا کھڑا تھا مسلسل گا رہا تھا اور کھڑکی کے نچلے تختے پر طبلہ بجاتا جارہا تھا وہ جو اس کے پیچھے کھڑا تھا اس نے اپنی ٹوپی ذرا سی ترچھی کرلی تھی اور آگے والا جب گاتے گاتے رک جاتا تو پیچھے والا اپنے منہ سے ساز بجانے لگتا تھاانکے پیچھے کھڑا تیسرا آدمی مسکرائے جارہا تھا اسکے پیچھے جو شخص کھڑا تھا اسے میں نے پہلے بھی کہےں دیکھا تھاغالباً یہ راشن کارڈ بنانےوالا وہی کلرک تھا جو بائیں ہاتھ سے لکھا کرتا تھا اور دفتر میں ہمیشہ جوتے اتار کر بیٹھتا تھا راشن کارڈ بنوانے والوں کی قطار میں کھڑے ہوئے لوگوں کو دھتکارا کرتا تھا مگر اس روز خود قطار میں کھڑا تھا اور بڑا مسرور نظر آتا تھا کہ وہ چھٹے نمبر پر کھڑا ہے جو لوگ قطار کے درمیان تھے انکے بارے میں طے کرنا مشکل تھا کہ کیا سوچ رہے تھے کچھ کنگنا رہے تھے کچھ گھر سے چلغوزے لے آئے تھے ‘کچھ کھڑے ربڑ کی چپلوں کے فائدوں اور نقصانات پر بحث کررہے تھے ان لوگوں کے پیچھے بزرگوں کی ایک ٹولی کھڑی تھی کپڑے سے رگڑ رگڑ کر صاف کرتے کرتے انکے چشموں کے شیشے دھندلاگئے تھے‘ ان سب نے جوتوں کے پچھلے حصے کو ایڑیوں سے دبا دبا کر چپل بنالیا تھا اور پتلونوں میںنیفے ڈالوا کر انہےں ازار بندوں سے باندھ رکھاتھا بال رنگوائے ہوئے عرصہ گزر چکا تھا اور بالوں کی جڑیں سفید سے بھی زیادہ سفید نظر آتی تھےںبزرگوں سے پیچھے جو لوگ کھڑے تھے ان کا کام ذرا مشکل تھا وہ بار بار گردنیں نکال نکال کر اپنے سے آگے کھڑے ہوئے لوگوں کو گن رہے تھے اس ٹولی سے پیچھے جو لوگ کھڑے تھے ان کا کام آسان تھا وہ بار بار اپنے سے پیچھے والوں کو دیکھ کر خوش ہورہے تھے خود میںنے بھی کئی بار مڑکر پیچھے دیکھا تھا اور دیکھا تھا کہ اب قطار میں کوئی بھی نیا آدمی نہےں آرہا ہے بہت دیر سے کھڑا آخری آدمی میں ہی ہوں۔