اتفاقات کی دنیا۔۔۔

میں ایک الیکٹرانکس کی شاپ پر بیٹھا تھا تو وہاں ایک نوجوان لڑکی آئی وہ کسی ٹیپ ریکارڈر کی تلاش میں تھی دکاندار نے اسے بہت اعلیٰ درجے کے نئے نویلے ٹیپ ریکارڈر دکھائے لیکن وہ کہنے لگی مجھے وہ مخصوص قسم کا مخصوص Madeکا مخصوص نمبر والا ٹیپ ریکارڈر چاہئے میں بیٹھا غور سے اس لڑکی کی باتیں سننے لگا کیونکہ اس کی باتیں بڑی دلچسپ تھےں اور وہ الیکٹرانکس کے استعمال کی ماہر معلوم ہوتی تھی ‘انجینئر تو نہےں تھی لیکن اس کا تجربہ اور مشاہدہ خاصا تھا وہ کہنے لگی کہ آپ مجھے مطلوبہ ٹیپ ریکارڈر تلاش کرکے دیں‘ میں آپ کی بڑی شکر گزار ہوں گی میں نے اس لڑکی سے پوچھا بی بی! آپ اس کو ہی کیوں تلاش کررہی ہےں؟ اس نے کہا کہ ایک تو اس کی مشین بہتر تھی اور اس کو میری خالہ مجھ سے مانگ کر دبئی لے گئی ہےں اور میں ان سے واپس لینا بھی نہےں چاہتی لیکن اب جتنے بھی نئے بننے والے ٹیپ ریکارڈرز ہےں ان میں وہ خصوصیات اور خوبیاں نہےں ہےںجو میرے والے میں تھےں اس واقعہ کے دوسرے تیسرے روز مجھے اپنے ایک امیر دوست کے ساتھ کاروں کے ایک بڑے شوروم میںجانے کا اتفاق ہوا شوروم کے مالک نے ہمیں کار کا ایک ماڈل دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ ماڈل تو ابھی بعد میں آئے گا لیکن ہم نے اپنے مخصوص گاہکوں کے لئے اسے پہلے ہی منگوالیا ہے انہوں نے بتایا کہ اس ماڈل میں پہلے کی نسبت کافی تبدیلیاں کی گئی ہےں اور یہ کمال کی گاڑی بنی ہے میں نے استفسار کیا کہ کیا پچھلے سال کی گاڑی میں کچھ خرابیاں تھےں جو آپ نے اب دور کردی ہےں؟ وہ خرابیوں کے ساتھ ہی چلتی رہی ہے ! اس میں کیا اتنے ہی نقائص تھے جو آپ نے دور کردیئے؟ کہنے لگے نہےں اشفاق صاحب یہ بات نہےں ہے ہم کوشش کرتے رہتے ہےں کہ اس میں جدت آتی رہے اور اچھی ‘باسہولت تبدیلی آتی رہے تو یہ سن کر مجھے یہ خیال آنے لگا کہ ہر نئی چیز ہر پیچیدہ چیز‘ ہر مختلف شے یقینا بہتر نہےں ہوتی۔جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے پچھلی باتیں بڑی شدت ‘ صفائی اور جزویات کےساتھ یاد آتی چلی جا رہی ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان میں کوئی ایسی نا خوشگوار بات نہیں ہے صرف اس بات کا ان یادوں میں ضرور احساس پایا جاتا ہے کہ وہ لوگ اور وہ زمانے جس میں شفقت و محبت اور انس زیادہ تھا وہ کہاں چلے گئے اور ہم اس قدر کیوں مصروف ہو گئے‘ ہم شاہراہ ریشم پر چل رہے تھے اور ہمیں شام پانچ چھ بجے کے قریب چلاس پہنچنا تھا ‘چلاس پہاڑی علاقہ ہے اور کافی اونچائی پر ہے ‘ یہ خوبصورت علاقہ ہے اوراس کے پہاڑوں کے شگافوں میں ایک سیاہ رنگ کی دوائی سلاجیت پیدا ہوتی ہے وہ بہت قیمتی ہوتی ہے ہمارے لیڈرنے وہاں رکنے کا بندوبست کیا تھا اوروہاں ایک سکول ماسٹر کے گھر پر ہمارے ٹھہرنے کاانتظام تھا ‘جب ہم وہاں پہنچے تو شام پانچ کی بجائے ہمیں رات کے دس بجے گئے ‘اس دیر کی بابت ہم سب نے فیصلہ کیا کہ اتنی رات کو کسی کے گھر جانا برا لگتا ہے چنانچہ ایک صاف سے پہاڑ پر جس پر ایک عدد سرکاری بتی بھی لگی تھی ہم اپنے بستر کھول کر اس بتی کے نیچے بیٹھ گئے ‘بڑی مزیدارہوا چل رہی تھی وہاں قریب ہی پانی کا ایک نل تھا جو کسی بہت ہی خوشگوار چشمے کے ساتھ وابستہ تھا ۔ ہم وہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک بہت خوفناک طوفان چلنے لگا۔ تیز ہوا کے اس طوفان سے عجیب طرح کا ڈر لگ رہا تھا ‘اس تیز ہوا کے سبب ریت بھی اڑنے لگی ‘ جن لوگوں نے چلاس دیکھا ہے انہیں پتہ ہو گاکہ وہاں اگر تقریباً دو کلو میٹر کا فاصلہ طے کریں تو ریگستان شروع ہو جاتا ہے اور پہاڑوں پر چلتے ہوئے اچانک حد نگاہ تک ریت دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اس تیز طوفان کے ساتھ ہی تیز بارش بھی ہونے لگی اور اولے بھی پڑنے لگے ‘ہمارے پاس Protection کےلئے کوئی چیز یا جگہ نہ تھی ‘اس موقع پر ہمارے لیڈر عمر بقری مرحوم نے کہا کہ ماسٹر صاحب کے گھر چلنا چاہئے خیر ہم نے اس اندھیرے اور طوفان میں آخرکار گھر تلاش کر ہی لیا ‘جب وہاں پہنچے تو ماسٹر صاحب پریشان کھڑے تھے اور ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کسی کے سوئم پر گئے تھے لیکن اپنی بیوی کو اشارہ دے کر گئے تھے کہ میرے دوست آئیں گے۔ (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)