رہنما۔۔۔

بڑے برسوں کے بعد میں سینما دیکھنے گیا کالج کے زمانے میں ہم سینما دیکھنے جایا کرتے تھے تب بھی اس وقت ہی جاتے تھے جب مےٹنی شو ہوتا تھا اور اتنے سال کے بعد جب دوبارہ سینما جانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو بھی یہ میٹنی شو ہی تھا۔32سال کے بعد بلکہ اس سے بھی زیادہ سالوں کے بعد میں ایک بار پھر چند روز قبل سینما دیکھنے گیا کڑی دھوپ تھی لیکن جب میں سینما کے اندر داخل ہوا تو مجھے اندر اندھیرا نظر آیا جیسا کہ باہر سے اچانک اندر جائیں تو آنکھیں چندھیائی ہوئی ہوتی ہیں ہال میں میری سیٹ قریب ہی تھی اور میں بیٹھ گیا اس کے بعد سکرین چلنے سے قبل ایک اور صاحب ڈائس پر آئے جنہوں نے روشنی کے ایک ہالے کے اندر اس فلم کا تعارف کرایا کہ اس فلم کو بنانے کا مقصد کیا تھا اور اسے کس لئے چلایا گیا ؟ اور کس لئے ہم نے یہاں بطور خاص پڑھے لکھے لوگوں کو دعوت دی ہے ان صاحب کو روشنی کے ہالے میں دیکھ کر مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی طرح ¾ کسی روشنی کے ہالے میں آجائے تو وہ خودبخود اجاگر ہونے لگتا ہے اس کو یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ دیکھو اس وقت میں اپنا آپ ظاہر کر رہا ہوں ¾ فلم شروع ہوئی اور ہال میں بالکل اندھیرا چھا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہال کا دروازہ کھلا اور ایک تماشائی اندر داخل ہوا میں نے پلٹ کے دیکھا وہ مجھے نظر تو نہیں آیا کیونکہ دروازہ بند ہوگیا تھا جب دروازہ کھلا تھا تو اندر آنے والے شخص کا وجود مجھے نظر آیا تھا میں سوچنے لگا کہ یہ آدمی تو کسی صورت میں بھی اپنی سیٹ تک نہیں پہنچ سکتا لیکن تھوڑی ہی دیر میںایک ٹارچ چلی اور اس ٹارچ نے اس شخص کے پاﺅں کے اوپر ایک چھوٹا سا ہالہ بنایا اور اس ہالے کی مدد سے وہ شخص چلتا گیا ٹارچ والا اس کے پیچھے پیچھے آتا گیا اور جہاں اس شخص کی سیٹ تھی اس کو بٹھادیا گیا اس کے بعد میں نے پھر فلم تو کم دیکھی یہی سوچتا رہا کہ اگر کسی شخص کی زندگی میں ایسا ہالہ آئے اور کوئی گائیڈ کرنے والا اسے میسر ہو تو پھر وہ شخص یقینا اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔
(اشفاق احمد کے نشرپروگرام سے اقتباس)