جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے پچھلی باتیں بڑی شدت ‘ صفائی اور جزویات کےساتھ یاد آتی چلی جا رہی ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان میں کوئی ایسی نا خوشگوار بات نہیں ہے صرف اس بات کا ان یادوں میں ضرور احساس پایا جاتا ہے کہ وہ لوگ اور وہ زمانے جس میں شفقت و محبت اور انس زیادہ تھا وہ کہاں چلے گئے اور ہم اس قدر کیوں مصروف ہو گئے‘ ہم شاہراہ ریشم پر چل رہے تھے اور ہمیں شام پانچ چھ بجے کے قریب چلاس پہنچنا تھا ‘چلاس پہاڑی علاقہ ہے اور کافی اونچائی پر ہے ‘ یہ خوبصورت علاقہ ہے اوراس کے پہاڑوں کے شگافوں میں ایک سیاہ رنگ کی دوائی سلاجیت پیدا ہوتی ہے وہ بہت قیمتی ہوتی ہے ہمارے لیڈرنے وہاں رکنے کا بندوبست کیا تھا اوروہاں ایک سکول ماسٹر کے گھر پر ہمارے ٹھہرنے کاانتظام تھا ‘جب ہم وہاں پہنچے تو شام پانچ کی بجائے ہمیں رات کے دس بجے گئے ‘اس دیر کی بابت ہم سب نے فیصلہ کیا کہ اتنی رات کو کسی کے گھر جانا برا لگتا ہے چنانچہ ایک صاف سے پہاڑ پر جس پر ایک عدد سرکاری بتی بھی لگی تھی ہم اپنے بستر کھول کر اس بتی کے نیچے بیٹھ گئے ‘بڑی مزیدارہوا چل رہی تھی وہاں قریب ہی پانی کا ایک نل تھا جو کسی بہت ہی خوشگوار چشمے کے ساتھ وابستہ تھا ۔ ہم وہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک بہت خوفناک طوفان چلنے لگا۔ تیز ہوا کے اس طوفان سے عجیب طرح کا ڈر لگ رہا تھا ‘اس تیز ہوا کے سبب ریت بھی اڑنے لگی ‘ جن لوگوں نے چلاس دیکھا ہے انہیں پتہ ہو گاکہ وہاں اگر تقریباً دو کلو میٹر کا فاصلہ طے کریں تو ریگستان شروع ہو جاتا ہے اور پہاڑوں پر چلتے ہوئے اچانک حد نگاہ تک ریت دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اس تیز طوفان کے ساتھ ہی تیز بارش بھی ہونے لگی اور اولے بھی پڑنے لگے ‘ہمارے پاس Protection کےلئے کوئی چیز یا جگہ نہ تھی ‘اس موقع پر ہمارے لیڈر عمر بقری مرحوم نے کہا کہ ماسٹر صاحب کے گھر چلنا چاہئے خیر ہم نے اس اندھیرے اور طوفان میں آخرکار گھر تلاش کر ہی لیا ‘جب وہاں پہنچے تو ماسٹر صاحب پریشان کھڑے تھے اور ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کسی کے سوئم پر گئے تھے لیکن اپنی بیوی کو اشارہ دے کر گئے تھے کہ میرے دوست آئیں گے‘چند دنوں کی بات ہے ‘میں ایک پروگرام دیکھ رہا تھا کوئی ڈاکٹر تھے ‘کمپیئر نے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ آپ کی زندگی کا کوئی بہت مشکل آپریشن تھا؟ تو انہوں نے کہا‘ ایک آپریشن بہت مشکل تھا جس نے بہت زیادہ وقت لیا اور میری بہت زیادہ توجہ لی اور میں بہت سٹپٹایا ‘میںاپنے سرجری ہسپتال میں تھا کہ اچانک وہاں پر ایک اپاہج آدمی کوجو ابھی اپاہج ہوا تھا کوئی ایک آدھا گھنٹہ قبل اسے چارپائی پر ڈال کر لائے وہ ایک نوجوان تھا جس کی دونوں ٹانگیں ایک تیز دھار آلے سے کٹ گئی تھےں اور اس کے ساتھیوں نے اس کی رانوں پر بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے رومال یا کوئی رسیاں باندھی تھےں تاکہ جریان خون نہ ہو اور وہ جب وہ میرے پاس پہنچا تو میں حیران تھا کہ میں اس کا کیا کروں اس کے فوراً ہی بعد دو آدمی ‘بھاگے بھاگے آئے اور انہوں نے کہا کہ جی اس کی دونوں ٹانگیں مل گئی ہےں مشین میں کام کرتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگیں ران سے نیچے کٹ کر دور جاگری تھےں تو یہ واقعہ اور یہ سانحہ گزرا تھا پاکستان سٹیل ملز میں ایک کوئی بڑا تیز چکر گھوم رہا تھا کٹاﺅ دار جس میںوہ کام کرتے ہوئے قریب آیا تھا کسی کام کی غرض سے وہ مزدور بڑا ذہین ‘بڑا قابل اور بہت سمجھدار تھا ‘لیکن وہ ا سکی لپیٹ میں آگیا ‘اور لپیٹ میں آتے ہی اس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں اور بہت دور جاگریں اور اس کے ساتھیوں نے تلاش کرلیں اور وہ اس کو ڈاکٹر صاحب کے پاس لے کر آگئے تو ڈاکٹرصاحب نے کہا کہ وہ میرے لئے بڑے امتحان کا وقت تھا میں اور میرے ساتھی اور میرے اسسٹنٹ میرے ساتھ لگے ہم کوئی مسلسل 18 گھنٹے اس پر کام کرتے رہے اور جب آپریشن ختم ہوا تو ہم ڈاکٹر بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگے تو وہ جو اس کے دوسرے ساتھ مزدور تھے انہوں نے ہمیں بتایا کہ جب ہم اس کو چار پائی پر لے کر چلے ہےں تو وہ صاحب جوتھے جن کا نام شکور تھا وہ تھوڑے سے ہوش میں تھے اس نے اپنے ساتھیوں کو بلا کر کہا کہ مشین بند نہ کرنا کیونہ اگر یہ مشین ایک دفعہ بند ہوگئی تو اسکے چلانے میں دس لاکھ کا خرچہ اٹھتا ہے تو اس مشین کو بالکل بند مت کرنا میں نہےں چاہتا کہ میرے ملک کو یا میرے اس کارخانے کو کوئی نقصان پہنچے تو اس کے بعد وہ نیم بے ہوشی میں چلاگیا۔ (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)