معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر اپنی یادداشتوں میں پی ٹی وی سے اپنی برطرفی کے بعد کی مایوسی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ 1988ء کا سال میرے لئے بڑا صبر آزما تھا کیوں کہ پی ٹی وی کے ایم ڈی کی سیٹ سے ہٹائے جانے کے بعد میرے اوپر ڈپریشن‘ملول اور غمزدگی سے بادل چھاگئے تھے اور میں بہت دل برداشتہ تھا مجھے صدر پاکستان نے بہ یک جنبش قلم پی ٹی وی سے ہٹا دیا تھا یہ میرے لئے بہت بڑا صدمہ تھا جمیل الدین عالیٰ نے اس واردات کے پہلے ہی دن مجھے بڑے پیار سے دلائل دے کر سمجھانے کی کوشش کی کہ اب تمہاری زندگی کا ایک نیا دور شروع رہا ہے مجھے غم تھا‘خفگی تھی‘غصہ تھا کہ آخر یہ سب میرے ساتھ کیوں؟ کیا میری تمام عمر کی خدمات کا یہی صلہ تھا جو مجھے دیاگیا یہ لوگ میرے کردار اور شخصیت سے قطعی ناواقف تھے ان دنوں میں صرف یہی سوچتا رہتا تھا حد درجہ پریشان رہتا ہر طرف ناامیدیوں اور مایوسیوں کے اندھیرے چھائے رہتے تھے میں نے کہا ں کہاں اور کس کس طرح اپنا دل بہلانے کی کوشش نہ کی مگر کامیاب ہوتی نظر نہیں آئی مجھے پریشان دیکھ کر صفیہ میرے لئے نئی نئی مصروفیات ڈھونڈتی رہتی اور میرا مورال ہائی رکھنے کی کوشش میں لگی رہتی میرے برادرنسبتی ڈاکٹر انیس خان نے بھی ایک طویل خط بہ زبان انگریزی امریکہ سے بھیجا انہوں نے فلسفیانہ انداز میں دنیا کے نشیب وفراز سمجھانے کی کوشش کی میرے یہ کہنے پر کہ آخر میرے ساتھ یہ کیوں ہوا تو انہوں نے کہا آغا! میں جب نیا نیا اس ہسپتال میں آیا تو میرے سٹاف نے مجھ سے کہا کہ ایک مریض ہے جو بہت بدمزاج ہے اور ہر کسی پر بگڑتا رہتا ہے ذرا اس کا خاص خیال رکھئے گا جب میں اس سے ملا تو اس نے بڑے rude انداز میں مجھ سے باتیں کیں اپنی تمام تکلیفیں بیان کرنے کے بعد اس نے بڑے ترش انداز میں کہاDoctor why me? میں نے تامل کیا اور اس سے زیادہ ترش انداز میں اسے جواب دیا Jhon why not you وہ میرا جواب سن کر سکتہ میں آگیا میری بات سمجھ گیا اس کے بعد اس نے کبھی کسی سے بدتمیزی نہیں کی سو تمہارے لئے بھی یہی کہوں گا why not you میرے قریبی دوستوں نے میری سالگرہ منائی پھر ایک دن مجھے لاہور سے پاکستان سٹاف ایڈمنسٹریٹو کالج کا دعوت نامہ ملا کہ میں گریڈ 21 اور 22 کے سرکاری افسران کو ایک لیکچردوں یہ بڑا اعزاز تھا میں لاہور پہنچا رات کے کھانے کے بعد میں کالج کے لان میں چہل قدمی کے لئے نکلا تو اچانک مجھے اپنا ایک پرانا دوست مسعود ادھر مل گیا ہم دونوں ٹہلتے رہے پھر مسعود نے دریافت کیا کہ میں اتنا اداس اور پریشان کیوں ہوں؟ میں نے اپنا دل کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا اپنی ساری خفگی اور غصہ کا اظہار کر ڈالا میں نے کہا ان لوگوں کو میرے ساتھ ایسا سلوک کرنے کا کیا حق تھا مسعود خاموشی سے میری بات سنتا رہا اور پھر مسکرا کر کہا ان کو اس کا پورا حق تھا جو کچھ آپ اپنے بارے میں اپنی شخصیت کے بارے میں کہہ رہے ہو وہ یقینا سچ ہوگا مگر یہ یاد رکھیں یہ آپ کی Pereception ہے صدر کی آپ کے بارے میں کیا رائے ہے وہی اس سے واقف ہیں لہٰذا جان لیں انہوں نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا وہ اپنی رائے کو محفوظ رکھتے ہوئے کیا اس رات سونے سے پہلے میں جب بستر پر لیٹا تو میں نے اس کی ساری باتوں پر غور کیا اور سب کچھ میری سمجھ میں آگیا۔