وقت نہیں ہے۔۔۔۔۔

کراچی‘پنڈی لاہور میں میرے انتہائی قریبی عزیز واقارب آباد ہیں لیکن ہم ایک دوسرے کو نہیں مل پاتے ایک فوتگی کے موقع پر نیم غنودگی میں کچھ سویا ہوا تھا اور کچھ جاگا ہوا نیم دراز سا پڑا تھا وہاں بچے بھی تھے جو آپس میں باتیں کررہے تھے ان میں سے ایک بچے کی بات نے مجھے چونکا دیا وہ کہہ رہا تھا ’کوئی فوت ہوجائے تو بڑا مزہ آتا ہے ہم سب اکٹھے ہوجاتے ہیں اور سارے رشتہ دار ملتے ہیں پھر ایک بچے نے کہا کہ ’اب پتہ نہیں کون فوت ہوگا نانا بوڑھے ہوچکے ہیں‘ انکی سفید داڑھی ہے شاید اب وہ فوت ہوں گے اس پر جھگڑا کھڑا ہوگیا اور وہ آپس میں بحث کرنے لگے کچھ بچوں کا موقف تھا کہ ’پھوپھی بھی کافی بوڑھی ہوگئی ہیں وہ جب فوت ہوں گی تو ہم فیصل آباد جائیں گے اور وہاں ملیں گے اور خوب کھیلیں گے۔‘خواتین وحضرات! میں آپکو ایک خوشخبری دوں کہ بچوں کی اس بحث میں میرا نام بھی آیا میری بھانجی کی چھوٹی بیٹی جو بہت ہی چھوٹی ہے اس نے کہا کہ نانا اشفاق بھی بہت بوڑھے ہوچکے ہیں خواتین وحضرات!شاید میں چونکا بھی اس کی بات سن کر‘ جو میرے حمایتی بچے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ جب نانا اشفاق فوت ہوں گے تو بہت رونق ہوگی کیونکہ یہ بڑے مشہور ہیں جب بچوں کا جھگڑا کچھ بڑھ گیا اور ان میں تلخی پیدا ہونے لگی تو ایک بچے نے کہا کہ جب نانا اشفاق فوت ہونگے تو گورنر آئیں گے اس پر ایک بچی نے کہا کہ ’نہیں گورنر نہیں آئیں گے بلکہ وہ پھولوں کی ایک چادر بھیجیں گے کیونکہ گورنر بہت مصروف ہوتا ہے تمہارے دادا‘ یا نانا ابو اتنے بھی بڑے آدمی نہیں کہ ان کے فوت ہوجانے پر گورنر آئیں گے‘ وہ بچے بڑے تلخ‘سنجیدہ اور گہری سوچ بچار کیساتھ آئندہ ملنے کے پروگرام بنا رہے تھے ظاہر ہے بچوں کو تو اپنے دوستوں سے ملنے کی بڑی آرزو ہوتی ہے نا!ہم بڑوں نے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ہم رشتے بھول کر کچھ زیادہ ہی کاروباری ہوگئے ہیں چیزوں کے پیچھے بھاگتے پھر تے ہیں حالانکہ چیزیں ساتھ نہیں دیتیں ہم جانتے بھی ہیں کہ رشتے طاقتور ہوتے ہیں اور ہم رشتوں کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں آپ بھائی‘ ماں‘باپ‘بیوی‘ بیٹی چاہے کوئی بھی رشتہ دیکھ لیں‘ہمیں کسی نہ کسی رشتے میں بندھنا پڑیگا ہی چاہے گھر کا رشتہ ہی کیوں نہ ہو ہم کسی نہ کسی رشتے میں بندھے ہیں‘آزاد نہیں ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ نہیں ہمیں تو بہت زیادہ پیسے کی ضرورت ہے ہم ترقی کا مطلب مالی طور پر استحکام ہونے کو کہتے ہیں۔اگر ہم کہیں کہ ہماری اقدار بدل گئی ہیں تویہ بات غلط ہے اقدار اب بھی قائم ہیں سچے جھوٹے‘دیانتدار اور بددیانت میں اب بھی واضح فرق ہے ہم چاہے گھر بدل لیں‘ محلہ یا شہر بدل لیں قدریں ہر جگہ موجود ہوں گی خوفناک بات تو یہ ہے کہ ہمارے بچوں کو ایک دوسرے سے ملنے کیلئے ہمارے فوت ہونے کا انتظار ہے یہ خرابی بچوں کی نہیں ہے ہماری ہے میں تو ایسی خواہش کو ان کی خوبی گردانتا ہوں‘وہ ملنے کے تو خواہشمند ہیں خدا کیلئے کوشش کریں کہ ہم اپنے رشتوں کو جوڑ سکیں ایسی خلیج حائل نہ ہونے دیں کہ ملاقاتیں صرف کسی کے فوت ہوجانے کی مرہون منت ہی رہ جائیں‘ رشتے بڑی تیزی سے ٹوٹ رہے ہیں‘ یہ کریڈٹ کارڈز رشتے نہیں جوڑسکتے اور کوئی پانچ سالہ منصوبوں سے یہ کام نہیں ہوگا یہ کام تو ہمیں آج ہی کرنا پڑے گا اپنی کوتاہیاں جاننے کی ضرورت ہے اپنے رشتوں کو پہچاننے کیلئے ایک دوسرے کے قریب رہنے کیلئے وہ وقت نکالنا پڑیگا۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)