آٹو گراف بک

 بانو نے ایک دن مجھ سے کہا کہ ہمارے گھر میں ایک بہت اعلیٰ درجے کی میز ہونی چاہئے پھریہ میز ہمارے گھراورزندگی کا ایک حصہ بنتی گئی ۔ پھر گھر میں ہمارے بچے آتے رہے اور ہماری زندگیوں میں شامل ہوتے رہے ۔ وہ بھی اسی میز کو استعمال کرنے لگے لیکن میری بیوی بہت محتاط تھی کہ اس میز کی جو پائن ووڈ ٹاپ ہے ‘ کہیں اس میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو جائے یا نشان نہ پڑے اور اس میز نے بانو کی زندگی عذاب میںڈال دی تھی ۔ سارے کام چھوڑ کراس کی نگاہیں میز پر مرکوز رہتےں۔ ایک دن بانو نے دکھی ہو کر کہا کہ میں اب اس میزکا پائن ووڈ ٹاپ پالش کراﺅں گی ‘چنانچہ پالش کرنےوالے کو گھر بلایاگیا‘ اس نے دیکھ کر کہا کہ“ اس ٹاپ پررندہ تولگ نہیں سکتا اس پر چار زیرو کاریگ مال لگا کر آہستہ آہستہ اس کی گھسائی کروں گا۔ جس دن اس پالش والے کو آنا تھا اوراس نے کام شروع کر ناتھا‘اس رات میں اور میری بیوی بیٹھے اسی میز پر کچھ کام کر رہے تھے تو میں نے اس سے کہا کہ بانو اس میزکی سطح کو غورسے دیکھو اوران تمام نشانات کےساتھ اس تاریخ کو تلاش کرو جب یہ نشانات یکے بعد دیگرے پڑتے رہے یہاں تمہارے بڑے بیٹے نے پرکار سے نشان ڈالے تھے جب وہ پرچہ حل کر رہاتھا پھر آپ کی والدہ میری ساس وہ اس کے کونے پر بیٹھ کراپنے مقررہ وقت پر سر کو ”بسما“ خضاب لگاتی رہیں باوصف اس کے کہ وہ بہت موٹا اخبار پھیلا کر بڑی احتیاط کے ساتھ خضاب لگایا کرتی تھیں ‘ لیکن اس کے داغ دھبے اس میز پر لگ ہی جاتے تھے پھر جب ہمارا منجھلا بیٹا پیدا ہوا ‘ اس زمانے میں ایسے کھلونوں کا نیا نیا رواج چلا تھا جو بغیر چابی سے چلتے تھے ان کے پہئے ایک بار گھما دئیے جاتے تھے اور وہ تھوڑی دیر کیلئے چارج ہو جاتے تھے ۔ ہمارا پیارا منجھلا بیٹا جب ان کھلونوں کو گھساگھسا کر چھوڑتا تھا تو اس میز پر اس کے نشانات پڑتے تھے ‘ پھر میں نے ایک مرتبہ اپنے دفتر میں اپنے باس کی خوشنودی کیلئے گتے کاریک سنہراWel Come کا ٹا تھا اوراس کوPaper Cutter کی بجائے کسی اورکٹر سے کاٹا تھا اوراس کے نشان بھی میزپر موجود تھے تم جوبڑے احتیاط سے اپنی سلائی مشین رکھ کر سلائی کرتی رہی ہوا اور اس کے چاروں’پوڈوں‘کے نشان بھی بڑی پختگی کے ساتھ اس میز پر موجود ہیں جب اتنے آدمیوں کے دستخط اس پر موجود ہیں تو تم اپنے اس قیمتی آٹو گراف بک کو کیوں ضائع کرتی ہو‘ اگراس پر چارزیروکا ریگ مال پھرا تو یہ سارے نشان مٹ جائیں گے ‘ میں چاہتا ہوں کہ تم اس کو ایسے ہی رہنے دو‘ یہ بات بانو کے دل کولگ گئی اوراس نے کہا ٹھیک ہے لیکن اسے خوف بھی ہوا۔ بچو! عورت کے دل کا سب سے بڑا خوف یہ ہوتا ہے کہ دوسری کیاکہے گی ‘ جب مہمان گھر میں آئیں گے تو خواتین تھرتھر کانپ رہی ہوتی ہیں کہ کہیں کسی بات میں کوئی کمی بیشی نہ ہو جائے ۔کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اس کو تو گھررکھنا نہیںآتا۔میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ ہم ایک پلاسٹک شیٹ خرید لیں گے جب گھرمیں شرفاءنکتہ چین اور تنقید کرنے والی عورتیں آئیں گی تو ہم اس پلاسٹک کور کواس میز پرڈال دیاکریں گے اس سے ان کی بھی تسلی ہو جائےگی اورہماری آٹو گراف بک بھی محفوظ رہے گی ۔(اشفاق احمدکے نشر پروگرام سے اقتباس)